کشمیر کا مستقبل ایک ایگریمنٹ

جمعرات 6 اگست 2020

Faislan Shafa

فیصلان شفاء اصفہانی

کشمیر کا یہ مسئلہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے لے کر اب تک چلتا آرہا ہے- اور پتا نہیں کتنے سال گزر چکے ہیں پھر بھی ہر ایک پاکستانی کی زبان میں کشمیر،کشمیر،کشمیر ہے۔مجھے ایک بات یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے لئے اس بات پر آواز اٹھا رہا ہے کہ کشمیر پر ظلم ہو رہا ہے یا اس بات پر آواز اٹھا رہا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔

یہاں پاکستانی سر زمین میں پاکستانی کشمیریوں کے لئے آواز اٹھاتے ہیں وہاں بھارت کشمیریوں پر اور ظلم کے پہاڑ کھڑے کر دیتا ہے۔یہاں ایک بات زیر غور ہے۔کوئی بھی ملک اپنے کسی بھی شہری کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اس ملک میں زندگی بسر کرے،اور اسی ملک کے خلاف آواز اٹھائے اور بولے کہ ہم کسی اور کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

تو لازمی بات ہے وہ ملک ان تحریکوں کو روکنے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے گا۔

کشمیری پچھلے کئی سالوں سے یہی غلطی بار بار، بار بار، دوراتے آرہے ہیں۔انہیں یہ پتا نہیں ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں؟ یا کیا چاہتے ہیں؟وہ اپنے پیاروں کی سلامتی چاہتے ہیں؟ یا کیا چاہتے ہیں؟۔ امن سکون چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔یہ کچھ سوالات ہے جو اگر کشمیری سمجھ لے اور ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ خوشحال زندگی بسر کر سکیں گے۔

اور خوف سے آزاد ہو کر زندگی گزارے گے۔یا پھر بھارت سے الگ ہوکر ایک خودمختار ریاست بنانا چاہتے ہیں۔کشمیریوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ کہیں سال بھارت میں بیٹھ کر بھارت کے خلاف بول رہے ہیں۔تو یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی حکومت اس طرح کی تحریکوں کو روکنے کے لئے ہر اقدام اٹھاتی ہے۔کوئی بھی حکومت،کوئی بھی ملک، اپنے کسی بھی شہری کو "اینٹی اسٹیٹ مومنٹ" کی اجازت ہرگز نہیں دیتا-دنیا میں بہت ساری ایسی جگہیں ہیں جہاں پہ غیر مسلم اکثریت میں ہیں اور مسلم اقلیت میں ہیں۔

لیکن پھر بھی وہاں کے مسلم چین اور سکون کی سانس لے رہے ہیں کیوں؟کیوں کہ وہ لوگ اس ملک کی گورنمنٹ کے شاہانہ بشانہ کھڑے ہیں۔مجھے نہیں لگتا کی اگر کشمیری پرامن طریقے سے رہیں اور بھارت سرکار کو اس بات کی یقین دہانی کرائے کی وہ  بھارت سرکار کے ساتھ وفادار رہیں گے تو بھارت ان کی آزادی خوشی اور چین کیوں چھینے گا۔اگر کشمیر والے بھارت  کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے ہیں۔

اور بلکہ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم بھارت میں رہ کر بھارت سرکار کی سرپرستی میں اپنی زندگی شروع کریں گے۔تو مجھے نہیں لگتا کی بھارت کے پاس کوئی ایک وجہ بھی ہوگی کہ وہ کشمیریوں پر ان کے مذہب،ان کی ثقافت اور ایسی کسی چیزوں پر کوئی رکاوٹیں لگائیں جو ان کی زندگیوں کو مشکلات میں ڈال سکے۔اگر ایک ایگریمنٹ ہو بھارت سرکار اور کشمیریوں کے درمیان۔

۔۔۔اس ایگریمنٹ میں کوئی بین الاقوامی ممالک کوئی یونائیٹڈ نیشن United nation  کوئی نہیں ہوں۔یہ ایگریمنٹ صرف کشمیر اور بھارت سرکار کے درمیان ہو۔ظلم کشمیری برداشت کر رہے ہیں اور ان کا فیصلہ کرنے  کبھی کوئی،تو کبھی کوئی آ جاتا ہے۔ایک ایگریمنٹ کرے بھارت سرکار کشمیریوں کے ساتھ ایک ایسا ایگریمنٹ کرے کہ کشمیریوں کو سکون کی فضا کے ساتھ ساتھ ہر وہ حقوق دیا جائیگا جو دوسرے بھارت کے شہریوں کو مل رہے ہیں۔

اور ایک ایگریمنٹ کشمیر کی طرف سے بھی ہو کہ،ہم بھارت سرکار کے وفادار رہیں گے۔اور بھارت سے الگ ہونے کا سوچیں گے بھی نہیں اور بھارت سرکار کی سرپرستی میں رہ کر ہم اس ملک کی ترقی میں اپنا ہاتھ بٹائیں گے۔اور بھارت کو اپنا ملک اپنی سر زمین سمجھیں گے۔اگر یہ ایگریمنٹ بھارت سرکار اور کشمیر کے درمیان ہوجاتا ہے تو پھر کس چیز کی لڑائی، تو کس چیز کا جھگڑا، پھر کس چیز کا اختلاف، تو کس چیز سے اجتناب، جو ابھی کشمیر میں خون کی ندیاں بہائیں جارہی ہے تو میں اس یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایگریمنٹ طے پانے کے بعد کہیں کوئی خون کہ ندی تو دور کی بات خون کی ایک بوند بھی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔

پھر کس بات کا خون، تو کس بات کی لڑائی، کس بات کی پریشانی،تو کس بات کا دکھ، کس بات کا ڈر، تو کس بات کا خیال۔یہاں لڑائی جھگڑا،فتنہ وہ فساد نظر ہی نہیں آئے گا۔یہاں  پاکستان اور باقی دنیا کے ممالک ایک بات واضح کر دیں ان کا مقصد کشمیر کو حاصل کرنا ہے یا کشمیریوں کی خوشی ہے؟؟ یا کشمیریوں کو خوش دیکھنا چاہتے ہے؟؟خوشی کا تعلق لازمی نہیں کہ پاکستان سے الحاق کر کے ہی میسر ہوں۔

اگر بھارت سرکار انہیں انکے مذہب، ان کی ثقافت،انکی عزت، ہر وہ چیز جو دوسرے بھارتیوں کو مل رہے ہیں۔وہ سب کشمیریوں کو بھی ملے تو بے سکونی کی کوئی بات نہیں ہوتی۔پھر کس چیز  کی تنگی،پھر کس چیز کی لڑائی تو پھر کس چیز کا ڈر۔پھر ہر جگہ امن ہی امن نظر آئےگا۔جنگ کا کوئی نام و نشان ہی نہیں ہوگا۔پھر کیا چیز ہوگی جو کشمیریوں کو تنگ کرے گی۔پھر کیا چیز ہوگی جو کشمیری سکون کی سانس نہیں لیں گے۔

پھر کیا چیز ہوگی جو کشمیریوں کو اپنے پیاروں سے الگ کریں گی۔پھر کیا چیز ہوگی جو کشمیریوں کو اپنے پیاروں کو کھونے کا ڈر دے گی۔پھر کیا چیز ہوگی جو کشمیری جب ان کے پیارے گھر سے باہر نکلتے ہیں  تو ان کے جسم میں جان نہیں رہتی۔اگر کسی کے پاس ہر چیز ہو لیکن سکون نہیں ہو تو وہ سب چیزیں بے مطلب ہو جاتی ہے۔سکون مل جائے کشمیریوں کو باقی چیزیں خود بخود مل جائیگی۔

کشمیری سکون چاہتے ہیں امن چاہتے ہیں۔پیار محبت کی فضا چاہتے ہیں۔یہ نہیں چاہتے آج ان پر بھارت حکومت کر رہا ہے کل پاکستان کرے گا۔کل کشمیر کے جو لوگ خود مختاری کے نعرے لگا رہے ہیں وہ حکومت کریں گے۔حکومت جو بھی کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔فرق یہ پڑتا ہے کہ آپ خوش ہیں یا نہیں أس حکومت سے۔کشمیریوں کو تو حکومت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے انہیں تو پیار محبت کی فضا چاہیے۔

جہاں وہ باہر نکلے تو یہ ڈر نہ ہو کہ ہم شام تک اپنے گھر صحیح سلامت پہنچے گے یا نہیں۔ان کے گھر والے جو اپنے پیاروں کا انتظار کر رہے ہیں ان کے دلوں کی دھڑکنیں تیز نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ وہ اس اطمینان سے رہیں کہ ان کے پیارے جہاں کہیں بھی ہیں صحیح سلامت ہیں۔یہ چاہتے ہیں کشمیری یہ نہیں چاہتے کوئی اور أن پر مسلط ہو کر  حکومت کرے یہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کے بیج سے ہی کچھ لوگ اٹھ کر کشمیر کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے۔

یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان سامنے آکر کشمیر کو خود سے ملائے۔امن،امن،امن یہ تین لفظوں کا جو مجموعہ ہے وہ سر زمین کشمیر کی فضا میں باد صبا کی طرح گردیش کرنا چاہیے۔جس طرح اذان کی آواز پوری فضا میں گھومتی ہے اور ہر ایک تک پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح امن کی فضا گونج اٹھے جس سے پورا شہر اجلا ہو۔بس بس، بس بس، یہی خواب ہے۔یہی حسرت ہے۔ یہی ایک چیز ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :