اچھے و نیک لوگوں کی صحبت

پیر 15 فروری 2021

Faiza Khan

فائزہ خان

صحبتِ صالح  تُرا صالح  کند
صحبتِ  طالح  تُرا طالح کند
نیک  کی صحبت تجھے نیک  بنائے گی
بد بخت کی صحبت تجھے بد بخت بنائیگی
مولانا روم رح
یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت کسی انسان کے مثبت روّیے اور اعلی اخلاق کی تعمیر و  تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلامی بھی  ہمیں نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کا باقاعدہ حکم دیتی ہے اور برے لوگوں کی صحبت سے دور رہنے کی سخت تاکید کرتی ہے۔

چنانچہ سورة الكهف  کی آیت  ٢٨ میں ارشاد باری تعالی ہے:
" اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کرجو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں  (رضامندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیاوی زندگی کے ٹاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔

(جاری ہے)

دیکھ اس کا کہا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے۔

"
اس کے علاوہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اس حوالے سے تائید ملتی ہے چنانچہ ارشاد مبارکہ ہے کہ:
"اچھے اور برے مصاحب کی مثال ، مشک اٹھانے اور بھٹی جھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری اٹھانے والا تمہیں تحفہ دیگا یا تم اس سے خریدوگے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی، جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمھارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بو  آئے گی۔

"(صحیح مسلم)
یعنی اگر کوئی شخص غفلت کا شکار ہو کر گناہوں پر دلیر ہو جانے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھےگا تو غالب گمان ہے کہ وہ بھی بہت جلد انہی کی مانند ہو جائے، بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے:
"بروں کی صحبت میں نہ بیٹھو اس لیے کہ ان کی صحبت دل اور روح کو بیمار کر دیتی ہے۔"
یہاں تک کہ قرآن پاک میں بروں کو دوست رکھنے والوں کے بارے میں بھی وعید سنائی گئی ہے چنانچہ سوره الفرقان آیت ٢٧-٢٩ میں ارشاد باری ہے کہ:
"اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش میں نےرسول (صلی اللہ علیہ  وسلم) کی راہ اختیار کی ہوتی ہائے افسوس کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا اس نے مجھے اسکے بعد گمراہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آ پہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو(وقت پر)دغا دینے والا ہے۔

"
جبکہ اسکے برعکس اگر کوئی شخص ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا جن کے دل اللہ کی یاد میں رہتے ہیں نیکی خشیت الہی وغیرہ جیسی عظیم صفات سے معمور ہوں تو یقینی طور پر یہی کیفیات اس شخص کے دل میں بھی سرایت کر جائیں گی۔ جیسے کہ ایک دفعہ ایک مشہور بزرگ حضرت سری سقطی رحمة الله عليه نے ایک دفعہ ایک شرابی کو دیکھا جو مدہوش زمین پر گرا ہوا تھا اور اپنے شراب آلودہ منہ سے اللہ اللہ کہ رہا تھا۔

حضرت رحمة الله عليه نے وہیں بیٹھ کر اس کا منہ دھویا اور فرمایا : 'اس بے خبر کو کیا خبر ؟ کہ نا پاک منہ سے کس پاک ذات کا نام لے رہا ہے۔' منہ دھو کر آپ چلے گئے، آپ کے بعد شرابی کو ہوش آیا تو لوگوں نے اسے سارا معاملہ بتایا جسے سن کر وہ شرابی بڑا پشیمان ہوا اور نادم ہوا، اور رونے لگا اور نفس کو مخاطب کرنے لگا کہ: 'اے بے شرم! اب تو سری رحمة الله عليه بھی تجھے اس حال میں دیکھ گئے ہیں۔

خدا سے ڈر اور آئندہ کے لیے توبہ کر۔'  رات کو سری سقطى رحمة الله عليه نے خواب میں سنا کہ: ' اے سری تم نے شرابی کا ہماری خاطر منہ دھویا، ہم نے تمہاری خاطر اس کا دل دھو دیا۔'  چنانچہ حضرت سری سقطى رحمة الله عليه تہجد کے وقت مسجد میں گئے تو اسی شرابی کو تہجد پڑھتے پایا۔ آپ نے اس سے پوچھا: ' تم میں یہ انقلاب کیسے آگیا؟ ' تو وہ بولا:  ' آپ مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں؟ جب کہ اللہ نے آپ کو بتا دیا ہے۔

'  
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ولی یا نیک بندے کی ایک نظر یا ان کی صحبت میں گزارا ہوا ایک لمحہ بھی انسان کی زندگی میں کتنا بڑا انقلاب لا سکتا ہے۔بقول مولانا رومى رحمة الله عليه کے: ' کسی دولت والے کا دامن تھام لے تاکہ اس کی بزرگی سے تو بلندی پالے۔'  اور اس معاملے میں اپنی مثال کچھ اسطرح دی کہ:
مولوی ہرگز نشد مولائے روم
تا غلام شمس  تبریزے   نشد
یعنی: مولوی بنتا  تھا کب مولائے روم (رحمة الله عليه)،  گر غلامِ شمس تبریز (رحمة الله عليه) نہ ہوتا کبھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :