مردو زن کا آزادانہ میل جول و باہمی اختلاط ۔آخری قسط

جمعہ 26 مارچ 2021

Faiza Khan

فائزہ خان

(گزشتہ سے پیوستہ)
مرد و زن کا اختلاط اور تعلیماتِ اسلام :
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مرد و زن کے باہمی اختلاط سے نسلِ انسانی کو پیدا فرمایا اور دونوں کے لیئے خصوصی احکام نازل فرمائے اور اس امر کا خاص اہتمام فرمایا کہ ہر ایک (مرد ہو یا عورت )اپنے اپنے دائر ہ کار میں رہ کر مصروفِ عمل ہو تاکہ معاشرہ پاکیزہ رہے ، اورکسی کو بھی اپنے مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دی ۔

عصرِ حاضر میں فسق و فجور اور معاصی و جرائم کی کثرت اور روز افزوں ترقی میں مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کا بہت حد تک دخل ہے، جبکہ اسلام نے واضح ہدایت کے ذریعے فواحش و منکرات اور بے حیائی تک پہنچانے والے تمام راستے حسنِ تدبیر سے مسدود کر دیئے ۔

(جاری ہے)

چنانچہ:
بے حیائی و بد کاری تک پہنچنے کے لئے سب سے پہلا قدم نگاہِ بد ہے ، اسلام نے اولاً اس پر پابندی عائد کر دی ہے کیونکہ یہ ایسا عمل ہے جس سے نہ صرف کسی شخص کی روح اور اس کا ضمیر بیمار ہوتا ہے بلکہ اس کی جسمانی صحت بھی مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے، مثلاَڈاکٹر نکلسن ڈیوڈ مشہور روحانیات و نفسیات کا ماہر اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : ” نگاہیں جس جگہ جاتی ہیں وہیں جمتی ہیں پھر ان کا اچھا اور برا اثر اعصاب و دماغ پر پڑتا ہے ۔

خاص طور پر شہوت کی نگاہ سے دیکھنے سے ہارمونری سسٹم میں خرابی میں نے دیکھی ہے ۔ شاید کوئی دیکھ سکے کیونکہ ان نگاہوں کا اثر زہریلی رطوبت کا باعث بنتی ہے اور ہارمونری گلینڈز ایسی تیز، خلافِ جسم زہریلی رطوبتیں خارج کرتے ہیں جس سے تمام جسم درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ایسے ہی جیسے کوئی انتہائی غریب شخص کسی انتہائی امیر آدمی کو دیکھتا ہے تو اس کے اندر حسد کی وجہ سے ہارمونز کی ایسی رطوبت پیدا ہوتی ہے ، جس سے اس کا دل اور اعصاب متاثر ہوتے ہیں۔

لہٰذا میرا تجربہ ہے کہ ایسی خطرناک پوزیشن سے بچنے کے لئے صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کا ہی سہارا لینا پڑے گا۔ “ (اسلام اور مشرکین) ۱ #
 چنانچہ ۱۴۰۰ سال پہلے ہی ایسی برائیوں اور بیماریوں اور ان کے نتائج سے بچنے کے لئے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مئومنوں کو یہی حکم دیا ،سورة النور آیت نمبر۳۰ ،۳۱ میں ہے کہ:
 ”ایمان لانے والے مردوں سے کہہ دیجیئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں۔


”اور ایمان لانے والی عوتوں سے بھی کہہ دیجیئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں۔“
یعنی مرد و عورتیں ایک دوسرے سے اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں ۔ نگاہوں میں حیا ہو اور مرد و عورت ایک دوسرے کے حسن و جمال سے آنکھیں مینکنے ، خط و خال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں ۔ نہ وہ باہم نگاہ بھر کر دیکھیں اور نہ ہی اپنی نگاہوں کو ایک دوسرے کو دیکھنے کے لئے بلکل آزاد چھوڑ دیں۔

اس طرح کا پہرا اگر نگاہوں پر نہ بٹھایا جائے تو نبی ﷺ کے الفاظ میں یہ آنکھوں کا زنا ہے اور یہی وہ نگاہ ہے جس کے بارے میں نبی ﷺ نے نصیحت فرمائی ہے لوگوں کو کہ اسے فوراََ پھیر لینا چاہیئے۔ پھر باہمی میل جول کے موقعوں پر شرم گاہوں کی حفاظت کی جائے، اس سے مراد عورت اور مرد اپنے صنفی اعضاء کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھیں ۔ مدعا یہ ہے کہ مرد و زن ایک جگہ موجود ہوں تو چھپانے کی جگہوں کو اور بھی زیادہ اہتمام کے ساتھ چھپایا جائے۔

اس میں ظاہر ہے کہ بڑا دخل اس چیز کو ہے کہ مرد و زن کا لباس باقرینہ ہو، تنگ نہ ہو اور صنفی اعضا ء کو پوری طرح چھپانے والا ہو۔ پھر ملاقات کے موقع پر اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی شخص برہنہ نہ ہونے پائے، شرم گاہوں کی حفاظت سے یہاں قرآن پاک کا مقصد یہی ہے ۔ ۲ #
 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک روز آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔

آنحضرت ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا کہ:” عورت کے لئے کیا چیز بہتر ہے؟ “ صحابہ رضی اللہ عنہم خاموش رہے کچھ جواب نہ دیا پھر جب میں گھر گیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :”عورتوں کے لئے سب سے بہتر و افضل یہ ہے کہ نہ وہ مردوں کو دیکھیں اور نہ مرد ان کو دیکھیں ۔“
حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
”بے شک جو شخص کسی اجنبی عورت کے محاسن (جنسوں) پر شہوت کی نظر ڈالے گا قیامت کے روز اس کی آنکھوں میں پگھلاہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔

“ ۳ #
غرض غصِ بصر (نیچی نگاہیں) پر عمل ہوتو اگلا قدم معصیت کی طرف نہیں بڑھ سکتا ، لیکن اگر غضِ بصر کے باوجود ممکن ہے کہ بے حجابی کی صورت میں اس حکم پر عمل نہ ہوسکے تو سورة النور کی آیت نمبر ۳۱ میں ارشاد فرمایا کہ :
”اوراپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں۔“
مرد و عورت ، خصوصاََ عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ باپردہ رہیں، وہ زیب و زینت کی کوئی چیز اپنے محرمات کے سوا کسی شخص کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں ،اسی طرح مردوں کی موجود گی میں وہ اپنے پاؤں زمین پر مار کر نہ چلیں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر نہ ہوجائے اس لئے کہ حجاب کے بعد بھی ممکن ہے کہ عورت کے زیورات کی آواز اور جسم کے اعضاء کی ہئیت کسی اجنبی کو معصیت کی طرف متوجہ کر دے چنانچہ اس کے سدِباب میں یہ حکم دیا کہ:
”اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے ۔

“ ( سورة النور:۳۱)
اسی بناء پر نبی کریم ﷺ نے عورتوں کے تیز خوشبو لگا کر باہر نکلنے کو بھی سخت نا پسند فرمایا ہے کہ اسکی زیب و زینت کی طرف میلان نہ ہو۔ ۴ #
اس کے بعد بھی ممکن ہے کہ عورت حجاب سے تو نرم رفتار سے جا رہی ہے لیکن اس کی دلکش آواز مرد کو متوجہ کر سکتی ہے ، چنانچہ اس کا انسداد بھی اللہ تعالیٰ نے سورة الاحزاب کی آیت نمبر ۳۲ میں فرما دیا کہ :
” تو تم (نا محرم مرد سے)بولنے میں (جبکہ ضرورتاً بولنا پڑے ) نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال(فرض وخواہش ) کرنے لگے اور تم قاعدہ (عفت )کے موافق بات کیا کرو۔


غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر مرد و زن کی عصمت و عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے اہتمام فرمایا ہے اور ہر وہ راستہ جس سے عصمت دری کا اندیشہ ہوسکتا تھا ، اس کو بند کرکے سورة بنی اسرائیل# ۳۲ میں ارشار فرمایا کہ :
ّّّّ”اور زنا کے قریب بھی مت جاؤ، بے شک وہ بے حیائی اور برا راستہ ہے۔“
ان قرآنی آداب سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مرد و زن کا اختلاط کوئی عام معاملہ نہیں ہے۔

قرآنی ہدایات کے علاوہ احادیث ِ مبارکہ سے بھی اس حوالے سے تعلیمات ملتی ہیں ۔چنانچہ تر مذی کی حدیث میں حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ:
 ”کسی عورت کے لئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کرے بغیراسکے کہ اس کے ساتھ اس کا باپ ، یا بھائی، یا شوہر ، یا بیٹا ، یا کوئی محرم مرد ہو۔


صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”کوئی غیر مرد کسی عورت کے ساتھ تنہا نہ ہو ، (پھر مزید فرمایا ) خواتین کی مجلس میں داخل نہ ہو۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا : یا رسول اللہ !کیا یہ پابندی شوہر کے رشتہ داروں (دیور، جیٹھ)پر بھی عائد ہوتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :”شوہر کے رشتہ دار تو (بیوی کے لئے ) موت کا پروانہ ہوتے ہیں ۔“
علامہ الشیخ محمد الصالح العثیمین رحمة اللہ علیہ نے فتویٰ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ : ”حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں ، کسی شوہر کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے بھائی کے پاس تنہا چھوڑ کر جائے ، چاہے اس کا بھا ئی کتنا ہی قابلِ اعتماد ، سچا اور نیک کیوں نہ ہو ، کیوں کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ۔


تذکرہ الاولیاء میں ہے کہ، حضرت اما م حسن بصری رحمة اللہ علیہ ،حضرسعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ کو اہم نصیحتیں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ”صحبت شیطان سے اجتناب کرو ،کسی عورت کے ساتھ تنہا نہ رہو خواہ وہ رابعہ بصری ہی کیوں نہ ہوں کیوں کہ اس میں خاص شیطان کا ہاتھ رہتاہے ۔“ ۵ #
اصلاح الرسوم میں ہے کہ : ”نا محرم مرد عورت کا باہم اختلاط بلا ضرورت ممنوع ہے اور ضرورت کے وقت بھی فضول باتیں ، ہنسی مزاق، وغیرہ بھی ممنوع ہے ، مرد کے گانے کی آواز عورت کو اور عورت کے گانے کی آواز مرد کو سننا ممنوع ہے ، حضرات فقہاء نے نو جوان نا محرم عورت کو سلام کرنے یا اس کا سلام لینے سے منع کیا ہے ۔

نا محرم عورت کا جھوٹا مرد کے لئے اور نا محرم مرد کا جھوٹا عورت کے لئے استعمال کرنا بھی مکروہ ہے کیونکہ دل میں لذت پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے ۔ جس طرح بُری نیت سے نا محرم کی طرف نظر کرنا ، طبیعت میں میلان پیدا ہوکر نا محرم کے لباس کو دیکھنا ، اس کی آواز سننا ، اس سے بولنا اور چھونا حرام ہے اسی طرح اس کا خیال دل میں جمانا اور اس سے لذت لینا بھی حرام ہے اور یہ قلب کا زنا ہے ۔

نا محرم کا ذکر کرنا یا سننا یا فوٹو دیکھنا ، اس سے خط و کتابت کرنا غرض جس ذریعے سے بھی خیالات فاسدہ پیدا ہوتے ہیں وہ سب حرام ہیں ۔ مرد کو غیر عورت سے بدن دبوانا بھی جائز نہیں ہے ۔نا محرم مرد اور نا محرم عورت کو بلا ضرورت دیکھنا ، جھانکنا بھی جائز نہیں۔“ ۶ #
غرض ان مذکورہ اسلامی تعلیمات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں مرد و زن کا اختلاط ممنوع ہے ۔

دوستوں یاروں کے ساتھ تفریحی مقامات ہوں یا خاندان کی کوئی تقریب ہو کسی صورت بھی باہمی اختلاط اور آزادانہ میل جول کسی بھی موقعہ پر جائز نہیں ،مگر چونکہ افسوس ہمارے معاشرے میں آج اسکولوں ، بازاروں، ہسپتالوں ، جامعات ، دفتروں، وغیرہ ہر جگہ مرد و زن کا اختلاط عام ہو گیا ہے تو اس لئے یہ ضروری ہے کہ غیر محرم افراد کا میل جول صرف کسی معقول وجہ سے ہی ہو ، کسی واقعی ضرورت اور مجبوری کے تحت غیر محرم افراد کو باہم ملنا جلنا پڑے تو اس کی اجازت ہے، لیکن ایسی صورت میں اختلاط کے حوالے سے مذکورہ اسلامی تعلیمات اور اس کے آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنا لازمی امر ہے۔

(مزید شواہد و معلومات کے لئے اس لنک کا مطالعہ کر لیا جائے تو بہتر ہوگا۔
حواشی و حوالہ جات:
1# کامیاب زندگی کے راز۔مولانامحمد ہارون معاویہ۔ ص : ۲۷۸
2# میزان۔ جاوید احمد غامدی ۔ باب : قانونِ معاشرت ،”مرد و زن کا اختلاط“۔ ص: ۴۶۰
3# پردہ اور جدید ریسرچ۔ محمد انور بن اختر
4# میزان۔ جاوید احمد غامدی۔ باب : قانونِ معاشرت ،”مرد و زن کا اختلاط“۔ ص: ۴۶۴
5# پردہ اور جدید ریسرچ۔ محمد انور بن اختر
 6# اللہ سے شرم کیجئے۔ مفتی محمد سلیمان منصور پوری۔ ص: ۹۰

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :