آزادیٴ نسواں ایک فریب ؟۔قسط نمبر1

جمعرات 18 مارچ 2021

Faiza Khan

فائزہ خان

 آزادی نسواں (Women'sLiberation) کی تحریک، جس کی آج ہمارے ملک میں خصوصاً نوجوان لڑکیاں اور خواتین کتنی حمایت کر رہی اور اس کا حصہ بھی بنتی جار ہی ہیں بغیر یہ سوچے سمجھے کہ آیا اس تحریک کی اصل حقیقت کیا ہے ۔ چنانچہ ہمیں اس تحریک کے چند حقائق و نتائج کو جو خود مغرب میں و قوع پذیر ہو چکے ہیں انہیں ملاحظہ کرنا چاہیے:
پس منظر:
یہ درست ہے کہ عورت ایک طویل عرصے سے مظلوم چلی آرہی تھی ۔

وہ اسلام سے قبل ہر قوم اور ہر خطے میں مظلوم تھی۔ یونان، مصر، روم، عراق، چین اور ہندوستان و عرب میں ہرجگہ مظلوم تھی ۔ اسلام نے عورت کو ظلم کے گرداب سے نکالا۔ اس کو معاشرے میں عزت اور سر بلندی عطا کی، اس کا احترام سکھایا، اس کے ساتھ انصاف کیا، اس کی داد رسی کی ۔

(جاری ہے)

لیکن مغرب کی جو قومیں اسلام کے سایہ رحمت میں نہ آسکیں وہ اسلام کی ان برکات اور ثمرات سے محروم رہیں۔

ان میں عورت کے حقوق برابر پامال ہوتے رہے۔ اور وہ ہر قسم کا ظلم و ستم سہتی رہی۔ اس کے علاوہ جب مغرب میں تمام اخلاقی اقدار سے آزادی کی ہوا چلی تو مرد نے عورت کو گھر میں رہنے کو اپنے لئے دوہری مصیبت سمجھا۔ ایک طرف تو اس کی ہوسناک طبیعت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کیے بغیر قدم قدم پر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔ اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجھ تصور کرتا تھاچنانچہ اس نے دونوں مشکلات کا جو حل نکالا اس کا نام ”تحریک آزادی نسواں“(MomentOfWomen'sLiberation) ہے۔

یعنی عورت کو یہ پڑھایا گیا کہ وہ ابھی تک گھر کی چار دیواری میں قید رہی ہے ، اب آزادی کا دور ہے اور اسے اس قید سے باہر آکر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر کام میں حصہ لینا چاہیے ۔ وہ مرد کی طرح ہر عہدے اور منصب کی اہل ہے ۔ لہٰذا مرد کی بالا دستی اس پر سے ختم ہونی چاہیے اور اس کو وہ سارے حقوق ملنے چاہیے جو مرد کو حاصل ہیں اوروہ ہر لحاظ سے آزاد ہے، اس پر کوئی قید نہیں ہے۔

عورت جو صدیوں سے مردوں کے ظلم و ستم سہہ رہی تھی اس کے لیے آزادی کا یہ تصور بڑا دل خوش کن تھا۔ چنانچہ اس نے فوراً لپک کر اس کو قبول کرلیا۔ اسی دوران یورپ کے صنعتی انقلاب (IndustrialRevolution) نے بھی ایک انگیخت کا کام کیا۔ چنانچہ اس طرح عورت گھر کی چار دیواری سے نکل کر کارخانوں، دفتروں، میں مرد کے د وش بدوش معاشی جدوجہد کرنے لگی تو کبھی کلبوں اور کھیل کے میدانوں میں مردوں کے ساتھ کھیل کود میں برابر حصہ لینے لگی۔


نتائج:
اب ہوا یہ کہ عورت کا وجود ہر شعبہ زندگی میں ضروری قرار پایا اور اس کے بغیر ہر شعبہ حیات میں زندگی بے کیف اور بے لطیف تصور کی جانے لگی۔ عورت اس کو ترقی کا نام دے کر اس کی طرف پیش رفت کرتی رہی لیکن اس کے بطن میں جو خرابیاں پنہاں تھیں ، چنانچہ عورت کی اس بے قید آزادی نے مغرب کو پوری زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔

اور اس کے نہایت گھناؤنے اور خطرناک نتائج سامنے آنا شرو ع ہوگئے:
(1) سب سے پہلے خطرناک نتیجہ تو یہ برآمد ہوا کہ عورت جب گھر کی چار دیواری سے نکل کر مجلسوں اور محفلوں کی زینت بنی اور بیرون خانہ سر گرمیوں میں داخل ہوئی تو اس نے خود کو مردوں میں گھرا ہوا پایا۔ ماہنامہ (ایم ۔ ایس) کی چیف ایڈیٹر گلوریا ٹیاٹم کہتی ہے کہ :
 ” اخبارات میں دسوں ایسے قصے شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں مردوں کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو لاحق خطرات کی تفصیلات کھل کر سامنے آتی ہیں۔

ایسی عورتوں نے ملازمتوں کے دوران اپنی تباہی کی داستان دلدوز انداز میں بیان کی ہے، انہوں نے بتایا کہ وہ جن مردوں کے ساتھ ملازمت کررہی تھیں ، ان کی جنسی خواہشات پوری کرنے سے انکار کے نہایت بھیانک نتائج سامنے آئے ۔“
چنانچہ کل جو عورت مردوں کے ساتھ مساوی حقوق کے لیے چیخ رہی تھی اب حال یہ ہوگیا کہ آج وہ اپنے ساتھ کام میں شریک مردوں کے ہجوم سے تنگ آ کر اپنی حفاظت کے لیے آواز دے رہی ہے ۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک طرف زندگی کے ہر گوشے میں مرد اور عورت کے بے باکانہ اور آزادانہ اختلاط نے پورے معاشرے میں جنسی آوارگی کا رحجان پیدا کردیا۔ فحاشی اور بدکاری کا عام چلن ہوگیا، تو دوسری طرف آرٹ و کلچر کے نام سے جنسی جذبات کی ترجمانی ہونے لگی۔ عریاں تصاویر کھینچی جانے لگیں، رقص و موسیقی کے نام پر عورت سے لذت حاصل کی گئی ۔ افسانوں، ڈراموں، شاعری اور ادب کے ذریعے جنسی اعمال و کیفیات کی تشریح ہونے لگی۔

اور عورت کا مقصد صرف اور صرف یہ رہ گیا کہ وہ مرد کے جنسی جذبات کی تکمیل اور تسکین کر ے گویا مرد کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ گئی ۔
(2) اس بے قید آزادی کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا ۔ خاندانی نظام عورت کی وجہ سے قائم تھا اور وہی اس کے نظم و نسق کو سنبھال رہی تھی لیکن جب وہ گھر سے باہر کارخانوں، دفتروں اور دوسرے اداروں میں گئی تو اس کی زندگی کی ساری تگ و دو گھر سے باہر ہونے لگی۔

اور بیرونی مصروفیات سے اس کا گھر عدم توجہی کا شکار ہو کر برباد ہوگیا۔ چنانچہ وہ سارے رشتے اور تعلقات جو خاندان کی بقا اور مضبوطی کا باعث ہوتے ہی ، ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے اور انسان اس سکون سے یک قلم محروم ہوگیا جو ایک خاندان ہی اسے فراہم کرسکتا ہے۔
(3) تیسرا نقصان اس آزادی کا یہ ہوا کہ عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں تناسب اور توازن قائم نہ رہا۔

وہ اس طرح سے کہ اسلام انسانی زندگی کو دو مختلف شعبوں میں منقسم کرتا ہے ، ایک گھرکے اندر اور دوسرا گھر کے باہر۔ یہ دونوں شعبے ایسے ہیں کہ ان دونوں کو ساتھ لیے بغیر متوازن زندگی نہیں گزاری جاسکتی ، گھر کا انتظام بھی ضروری ہے اور باہر یعنی کسب معاش اور روزی کا انتظام بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ان دونوں شعبوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ تقسیم فرمائی ہے کہ مرد کے ذمے گھر کے باہر کے کام لگائے اور گھر کا شعبہ عورتوں کے حوالے کیا ہے کہ وہ اسے سنبھالیں۔

عقل کے ذریعے انسان کی اس فطری تخلیق کا جائزہ لیا جائے اور مرد و عورت کے درمیان تقابل کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ جسمانی قوت جتنی مرد کے اندر ہے اتنی عورت میں نہیں اور کوئی شخص بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ کیونکہ باہر کے کام ایسی قوت و محنت کا تقاضا کرتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ نے مردوں کو فطری طور پر عطا کیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے عورت کی فطرت میں ماں بننا رکھا ہے تاکہ اس کی گود میں نسل انسانی پروان چڑھ سکے۔

جو ایک طویل اور دشوار گزار عمل ہے۔ اس میں حمل ، ولادت، رضاعت اور بچے کی پرورش اور تربیت وغیرہ جیسا ایک طویل سلسلہ ہے۔ جس میں مرد ایک رتی برابر بھی اس کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لے سکتا۔ چنانچہ انسانیت کی خدمت کا یہ وہ آدھا حصہ ہے جسے تنہا عورت سنبھالتی ہے اور کوئی مرد (چاہ کر بھی) اس میں ذرہ برابر بھی اس کا بوجھ نہیں بٹا سکتا۔ مشہور انگریزی ناول نگار اگا تھا کرسٹی کہتی ہے کہ:
 ” عورت بہت بے وقوف ہے کیونکہ معاشرے میں اس کا مقام دن بدن پست ہوتا جارہا ہے ، ہم عورتیں نہایت احمق ہیں کیونکہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہم نے مرد کی برابری کا درجہ حاصل کرنے اور گھر سے باہر ملازمت کرنے کا حق حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی، اور مرد چونکہ بے وقوف نہیں تھے، انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی اور اعلان کردیا کہ ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں کہ عورت ملازمت کرے اور گھر کے اخراجات میں مرد کا ہاتھ بٹائے۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم عورتوں نے پہلے تو یہ ثابت کیا کہ ہم کمزور اور جنس لطیف ہیں مگر پھر ہم مرد کی برابری کرنے کے لالچ میں اس محنت اور تھکن کے حصے دار بن گئی ہیں جو پہلے صرف مردوں کا نصیب ہوا کرتی تھی۔“
(4) اور چوتھا خطرناک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ عورت اور مرد کے درمیان باہمی محبت اور ہمدردی کا جذبہ جو ایک فطری جذبہ تھا، حقوق کی اس جنگ اور مادر پدر آزادی نے اس فطری جذبے کو مجروح بلکہ نیم جان کردیا۔

چنانچہ برطانوی خاتون وکیل وینسا لائیڈ پلیٹ کہتی ہے کہ:
 ” ملازمت پیشہ خواتین کی جنگجو یانہ طبیعت طلاق کا باعث بنتی ہے۔“ مزید کہتی ہے کہ: ” مردوں کا کہنا ہے کہ ملازمت سے قبل ہماری بیویوں کے پاس گھریلو کام کے لیے زیادہ وقت تھا وہ بہترین مہمان نواز اور اپنے شوہروں کا خیال رکھنے والی تھیں ۔ لیکن ملازمت کے بعد کئی مسائل نے سر اٹھا لیا ہے۔


ان طلاقوں کی وجہ سے ایک نتیجہ یہ نکلا کہ طلاق کی صورت میں عدالت مرد کی نصف جائیداد اور دوسرے کئی حقوق کی رقم کی ڈگری عورت کے نام کردیتی ہے ۔ چنانچہ مرد اس فیصلے سے سخت پریشان ہونے لگا، اب مردوں نے یہ صورت اختیار کی کہ بغیر نکاح کے انہوں نے عورت کے ساتھ زن و شوئی کے تعلق رکھنے شروع کردئیے اور اس طرح آج یورپ میں اکثریت مرد اور عورتوں کی بغیر قانونی نکاح کے شوہر اور بیوی بن کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔

تاکہ انہیں عورتوں کے حقوق سے فرار حاصل ہوسکے۔
 بقول علامہ اقبال:
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے مگر باطن میں گرفتاری
(جاری ہے)۔
مآخذِ تحریر از ” پردہ اور جدید ریسرچ - محمد انور بن اختر، آزادیٴ نسواں کا فریب -جسٹس(ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :