کھیل و تفریح اور اسلام ۔ قسط نمبر 3

منگل 9 مارچ 2021

Faiza Khan

فائزہ خان

تفریح جس کے ٹھیک معنی فرحت حاصل کرنا اور جسم و روح کو فرحت پہنچانے کے ہیں ،وہ اسلام میں نہ صرف جائز بلکہ شرعاً ایک حد تک مستحسن و مطلوب ہے تا کہ اس تفریح کے ذریعے جسم اور روح کا کسل اور طبعی ملال دور ہو کر دوبارہ طبیعت میں نشاط ، چستی ، حوصلہ ، ہمت وغیرہ پیدا ہو اور انسان ایک بار پھر پوری خوشدلی کے ساتھ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کی طرف متوجہ ہوسکے ۔


ایسی بامقصد تفریح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوئہ حسنہ سے پوری طرح ثابت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اسے جائز قرار دیا ہے بلکہ اعلیٰ مقصد کے پیش نظر اسے باعث ِاجرو ثواب بھی سمجھا ہے۔چنانچہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی پوری زندگی مسلسل جدو جہد،علم و عمل، خشیت خداوندی ،ذکرو فکرِ الٰہی،جہادو تبلیغ اور حسنِ عبادت سے آراستہ نظر آتی ہے وہاںآ پ صلی اللہ علیہ وسلمکے اسوئہ حسنہ میں ہمیں بامقصد کھیل اور وقتاً فوقتاً تفریح کی مثالیں بھی نظر آتی ہیں۔

(جاری ہے)

کیونکہ اسلام سستی،کاہلی و تنگ دلی کو ناپسند اور چستی اور فرحت و نشاط کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ سورة البقرہ # ۱۸۵ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
”اللہ تعالی تم پر آ سانی کرنا چاہتا ہے اور تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔“
سورة الحج # ۷۸ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
ّّ”اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی گئی۔“
ایک دفعہ عید کے دن کچھ بچیاں کھیل رہیں تھیں ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہنے انہیں روکنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” اے ابو بکر! انہیں چھوڑ دو یہ عید کا دن ہے تاکہ یہودیوں کو معلوم ہو جائے کہ ہمارا دین وسعت و گنجائش والا دین ہے۔

کیونکہ مجھے ایسی شریعت دے کر بھیجا گیا ہے جو افراط و تفریط سے یکسو اور آسان تر ہے۔“
 ایک حدیث میں رسولصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ:
”دلوں کو وقتاً فوقتاً خوش کرتے رہا کرو۔“
ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ :
”دل اسی طرح اکتا نے لگتا ہے جیسے بدن تھک جاتے ہیں تو اس کو لئے حکمت کے راستے تلاش کیا کرو۔


حضرت علیرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو مغموم دیکھتے تو دل لگی کے ذریعے اُسے خوش فرماتے تھے۔“
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین دیکھا تو اپنا ایک واقعہ سنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلمکو خوش کیا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 ”مومن قوی ،کمزور مومن کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور اللہ کو محبوب ہے ۔

باقی خیر دونوں میں ہے۔نافع چیز کے حریص رہو۔اللہ سے مدد مانگتے رہو اور عاجز مت بنا کرو۔“
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ:
”اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں عاجزی سے ، سستی سے ، بزدلی سے،کنجوسی سے اور بڑھاپے سے۔“
یہ روایات ہمیں بتاتی ہیں کہ خندہ پیشانی ،چستی اور تفریح وغیرہ اسلام کی رو سے پسندیدہ اور تُرش روئی ،سستی ،کاہلی ناپسندیدہ صفات ہیں۔

اس لیے مناسب حدود کے اندر رہتے ہوئے کھیل و تفریح کی شریعت نے اجازت دی ہے ۔ ۱ #
کھیل و تفریح کے حوالے سے وہ امور جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی احادیث اور سنت ِمبارکہ سے ثابت ہیں ،ان میں مندرجہ ذیل امور شال ہیں :
1۔ دوڑ: دوڑ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے پسند فرمایا ہے ، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہکے ساتھ دوڑ فرمائی ،چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ:
”میں پہلے(دوڑ میں) حضور صلی اللہ علیہ وسلمسے آگے بڑھ جاتی تھی ،لیکن جب میرا جسم بھاری ہو گیا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر سبقت
لے گئے اور فرمایاکہ : یہ اس کا بدلہ ہو گیا ۔


 اسی طرح حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہراوی ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے اعلان کیا کہ کوئی ہے جو میرے ساتھ مدینہ تک دوڑ کا مقابلہ کرے ؟ یہ شخص اتنا تیزدوڑتا تھا کہ لوگ اس پر سبقت حاصل نہیں کر پا تے تھے،میں نے اس سے کہا کہ تم کو کسی کی عزت و شرافت کا بھی خیال نہیں ،یعنی تم ہر بڑے چھوٹے کو دعوت ِمقابلہ دے رہے ہو ۔اس نے کہا کہ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے میں کسی اور کو دعوت ِمقابلہ دینے سے باز نہیں آ سکتا ۔

چنانچہ حضرت سلمہ رضی اللہ عنہنے آ پ صلی اللہ علیہ وسلمسے اجازت چاہی اور مقابلہ کیا ،تو سبقت حاصل کرلی ،اسی لئے فقہاء اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
2۔ کُشتی: اسلام کُشتی کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ حضرت رکا نہ رضی اللہ عنہعرب ک مشہور پہلوان تھے ، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوتِ مقابلہ دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے قبول فرمائی، کشتی ہوئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلمجیت گئے اور حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کو شکست ہوئی اور یہی شکست حضرت رکانہ رضی اللہ عنہکے قبول ِاسلام کا باعث بنی۔

مگر کشتی سے مراد یہاں صرف وہ کشتی ہے جس میں فریقِ مخالف کو زمین پر گرادیا جائے (جن کا مقصد محض جسمانی ورزش اور مدافعانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہو)، وہ فری اسٹائل کشتی نہیں جن کا آج رواج ہے۔ جس میں فریق ِمخالف پر آزادنہ تکلیف دہ وار کیے جاتے ہیں اور بعض دفعہ شدید جسمانی نقصان پہنچایا جاتا ہے ، اخلاقی اور انسانی حدود سے متجاوز ایسی کشتیاں اور دوسرے کھیل بلکل جائز نہیں اور حرام ہیں ۔

۲ #
3۔ گھوڑ دوڑ (Horse Riding): آ پ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے ،حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ :
”آپ صلی اللہ علیہ وسلمگھوڑے کی دوڑ کا مقابلہ کراتے ،جو گھوڑے چھریرے اور ہلکے بدن کے ہوتے ان کے لئے دوڑنے کی حد حفیہ سے ثنیتہ الوداع تک ہوتی اور جو بھاری ہوتے ان کی حد ثنیتہ الوداع سے مسجد بنو زریق تک ہوتی۔ “ ۳ #
گھوڑدوڑ کا کھیل ایسا کھیل ہے کہ اس میں جسم کی پوری ورزش کے ساتھ انسان میں مہارت، ہمت و جرأت، بلند حوصلگی جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں اور وقت پڑنے پر یہ کھیل جہاد اور سفر میں بھی خوب کام آتا ہے۔

جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ :
 ”جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑا باندھ کر رکھا اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے، تو اس گھوڑے کا تمام آب و دانہ حتّٰی کہ گوبر اور پیشاب قیامت کے دن اس شخص کے ترازوئے اعمال میں ہوگا۔“
 * اس کے برعکس اگر کسی اور نیت سے گھوڑا رکھا جائے تو اس حوالے سے حدیث مبارکہ ہے کہ :
” گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں۔

بعض باعثِ ثواب ،بعض باعثِ تحفظ اور بعض باعثِ وبال ،( ان میں ) باعثِ تحفظ وہ گھوڑے ہیں جنہیں آدمی برقراریٴ عزت اور اظہارِ نعمتِ الٰہی کے لیے رکھتا ہے اور گھوڑے کی پشت اور شکم سے جو حقوق وابستہ ہیں انہیں فراموش نہیں کرتا خواہ مخواہ تنگی ہو یا فراخی، اور باعثِ وبال وہ گھوڑے ہیں جنہیں مالک نے ریاء ،غرور ، تکبر اور اترانے کے لیے رکھا ہو، ایسے گھوڑے کے مالک کے لئے وبال ہیں۔


ان احادیثِ طیبہ میں اگرچہ گھوڑوں کے بارے میں مذکور ہیں، مگر ( اشتراکِ علّت سے اشتراکِ حکم کے پیش نظر) ہر وہ سواری جو جہاد یا سفر میں کام آتی ہو،اسی حکم میں داخل ہو گی۔اسلامی نقطہٴ نظر سے اسلام کے پسندیدہ کھیلوں میں شمار ہوگی ،جبکہ جائز اور نیک مقاصدکے لئے انہیں سیکھا اور استعمال کیا جائے۔ ۴ # (جاری ہے)
حواشی و حوالہ جات:
1 # کھیل اور تفریح کی شرعی حدود۔

مولانا محمود اشرف عثمانی۔ادارہ اسلامیات پبلشرز۔جون،۱۹۹۴ء ۔ ص: ۱۳- ۱۹
2 # اسلام اور جدید فکری مسائل۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔ھدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس، حیدرآباد۔ نومبر، ۲۰۱۱ء ۔ص: ۳۷۲
 3 # ایضاً۔ ص: ۳۷۳
4 # کھیل اور تفریح کی شرعی حدود۔ مولانا محمود اشرف عثمانی۔ادارہ اسلامیات پبلشرز۔جون،۱۹۹۴

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :