کھیل و تفریح اور اسلام ۔ قسط نمبر 2

پیر 22 فروری 2021

Faiza Khan

فائزہ خان

(گزشتہ سے پیوستہ)
لہو ،لعب اور لغو کی ممانعت کے علاوہ وہ تفریح و کھیل بھی جن کی احادیث و آثار میں صریح ممانعت آئی ہے جن کا عصر حاضر میں عام رواج ہے جیسے نرد ، شطرنج ، کبوتر بازی ، تاش ، جانوروں کو لڑانا، جوا کھیلنا وغیرہ جائز نہیں۔ ۱ # چنانچہ سورة المائدہ کی آیت نمبر ۹۰،۹۱ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
 ”اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تان اور جوئے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو تا کہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔


جوا کھیلنے کی سنگینی اور اسکے حرام ہونے کے حوالے سے تو شریعت اسلامی میں اتنی سختی ہے کہ ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس شخص نے اپنے ساتھی کو(قمار کی دعوت دیتے ہوئے) کہا: آؤ قمار (جوا) کھیلیں ، تو وہ(اپنے اس گناہ کے کفارے
 کے طور پر) صدقہ کرے۔

(جاری ہے)

“ (صحیح بخاری،کتاب الاستئذان) ۲ #
اسی طرح دوسری حدیث ِ مبارکہ ہے کہ :
”جس نے نرد شیر کا کھیل کھیلا توگویا اپنے ہاتھ سُور کے گوشت اور خون سے رنگ لئے ۔

“ (مسلم)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
 : ”شطرنج عجمیوں کا جوا ہے۔“ (بیہقی)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہنے فرمایا کہ :
 ”شطرنج گناہ گار ہی کھیلتا ہے ۔“ (ایضاً)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ ایک کبوتر کے پیچھے دوڑا جا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :
 ”ایک شیطان دوسرے شیطان کے پیچھے پیچھے جا رہا ہے ۔

“ (مسند احمد، ابوداوٴد،ابنِ ماجہ)
اسی طرح ترمذی اور ابو داؤدکی حدیث میں ہے کہ :
 ” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو لڑانے سے منع فرمایا ہے ۔“
اس حدیث کی روشنی سے مرغ بازی ، بٹیر بازی، مینڈھے لڑانا ، گاڑی بانوں کا بیلوں کو بھگانا اور دیگر جانورو ں کو بھگانا لڑوانا وغیرہ حرام ہے ۔ ۳ #
 اسی طرح جو کھیل و تفریح کسی حرام و معصیت پر مشتمل ہوں وہ اس معصیت یا حرام کی وجہ سے نا جائز ہوں گے ۔

اُن کی کئی صورتیں ممکن ہیں ،مثلاًکسی کھیل میں ستر کھولا جائے یا لباس چھوٹے ہوں جو ستر نہ ڈھانپ سکیں جو شرعاََ ممنوع ہے ،اس کھیل میں جوا کھیلا جا رہا ہو جو حرام ہے ، یا اس میں مرد و زن کا اختلاط یعنی مخلوط اجماع ہو جو شرعاََ ممنوع ہے ، یا پھر اس کھیل میں موسیقی کا اہتمام کیا گیا ہو یا شراب زنا بے پردگی اور بے حیائی کا انتظام کیا گیا ہو، یا اس کھیل میں کفار کی نقالی کی جا رہی ہو۔

۴ #
اسی طرح فلم دیکھنا تفریح کے لئے یا پھر کسی محفل میں فلم یا اسٹیج ڈرامہ (Show)دیکھنے کا انتظام کیا گیا ہو تو وہ بھی جائز نہیں کیونکہ یہ بیک وقت کئی کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے ۔مثلاََ گانا بجانا ، چنانچہ ایک اور حدیث ہے کہ:
 ”گانا دل میں اسی طرح نفاق پیدا کرتا ہے کہ جس طرح پانی کھیتی اگاتا ہے۔“ ۵ #
حضرت امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
”گانے ،راگ رنگ وغیرہ میں کبھی شرکت نہ کرو کیونکہ یہ چیزیں برائی اور جہنم کی طرف لے جانے کا پیش خیمہ ہے ۔

“ ۶ #
 رقص و سرور (Dance) جس کے خلاف شریعت ہونے میں کیا شبہ ہے ۔مزید یہ کہ غیر اخلاقی مناظر جن کا بیان اور اشاعت ہی جائز نہیں ۔غرض یہ تمام امورنا جائز و حرام ہیں خواہ کسی فلم یا ڈرامے میں ہو یا پھر کسی اور ذرائع تفریح میں ۔ ۷ #
ان کے علاوہ ایسا کھیل یا ایسی تفریح بھی جائز نہیں جو اپنے یا دوسرے کے لئے ایذاء رسانی کا باعث ہو اورجن میں جسم کو شدید نقصان پہنچنے کا کافی امکان ہو ۔

۸ #
غرض خرابیوں، معصیت، نا جائز اور حرام امور سے خالی کوئی بھی تفریح یا کھیل اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ صحیح مقصد ہو مثلاً جسمانی چستی ، صحت مندی کے لئے کوئی کھیل جیسے کرکٹ ، ٹینس ،فٹ بال وغیرہ ایک آدھے گھنٹے کے لئے کھیل لیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔اسی طرح کیرم بورڈ ، لوڈو وغیرہ اگر چہ اس میں کوئی جسمانی صحت اور چستی کا سوال تو نہیں مگر تفریح کے لئے کچھ دیر کھیل لیا جائے تو جائز ہے بشرط یہ کہ کوئی تصویر آویز نہ ہو، نہ ہی جوا وغیرہ جیسے معاملات کا دخل ہو اور طویل بھی نہ ہو۔

۹ # (جاری ہے)
حوالہ جات:
 ۱ # کھیل اور تفریح کی شرعی حدود۔ مولانا محمود اشرف عثمانی۔ادارہ اسلامیات پبلشرز۔جون،۱۹۹۴ء۔ ص: ۵۸-۶۲
۲ # بحوالہ: ”قمار اور عصرِحاضر میں اس کی مروجہ صورتیں“ از محمد عدنان۔الازھار،جولائی-دسمبر۲۰۱۸ء
۳ # کھیل اور تفریح کی شرعی حدود۔ مولانا محمود اشرف عثمانی۔ادارہ اسلامیات پبلشرز۔

جون،۱۹۹۴ء۔ ص: ۵۸-۶۲
۴# ایضاً۔ ص: ۴۳
۵# ایضاً۔ ص: ۷۳
۶ # تذکرةاولیاء۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار۔الفاروق بُک فاوٴنڈیشن،لاہور۔مئی ،۱۹۹۷ء۔ ص: ۱۹
۷# کھیل اور تفریح کی شرعی حدود۔ مولانا محمود اشرف عثمانی۔ادارہ اسلامیات پبلشرز۔جون،۱۹۹۴ء۔ ص: ۶۹-۷۴
۸ # اسلام اور جدید فکری مسائل۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔ھدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس، حیدرآباد۔ نومبر، ۲۰۱۱ء ۔ص: ۳۷۱
۹ # کھیل اور تفریح کی شرعی حدود۔ مولانا محمود اشرف عثمانی۔ادارہ اسلامیات پبلشرز۔جون،۱۹۹۴ء

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :