آزادیٌ نسواں ایک فریب ؟۔آخری قسط

ہفتہ 20 مارچ 2021

Faiza Khan

فائزہ خان

(گزشتہ سے پیوستہ)
علماء و محققینِ اہلِ یورپ فطرت کے آگے سر تسلیم خم :
یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کا دائرہ کار بالکل الگ رکھا ہے۔ جب بھی دونوں فریق ایک دوسرے کے فطری اور قدرتی دائرہ کار میں غیر فطری طور پر مداخلت کریں گے تو اس کا نتیجہ مذکورہ نتائج جیسا ہی برآمد ہوگا۔ اور اس حقیقت کا اعتراف آج اس تحریک کے ماننے والے اہلِ یورپ خود کررہے ہیں۔

فرانس کے مشہور ڈاکٹر مسٹر آئل اپنی کتاب ” یورپ اور آزادی “ میں تحریر کرتا ہے کہ :
”عورت کا مرتبہ تو یہ تھا کہ اس کو گھر کے تمام کام اور ضروریات سپرد کردی جائیں اور وہ بال بچوں کی بہترین طریقے پر داشت و پرداخت کرتی چہ جائیکہ یورپ آج اس سے ملکی اور فوجی کام لے کر اپنی روشن ضمیری اور بلند حوصلگی کا ثبوت دے رہا ہے۔

(جاری ہے)

حالانکہ یہ بلند حوصلگی اور روشن ضمیری نہیں بلکہ یورپ کی تاریک دلی اور کوتاہ بینی ہے، کیونکہ آئے دن کے تجربات ہم کو بتارہے ہیں کہ عورت کو اس قدر آزاد چھوڑنا کسی طرح بھی سود مند نہیں بلکہ سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔


فلسفہ حسی کا موسس آ گسٹ کونٹ اپنی مشہور تصنیف” النظام السیاسیہ علی حسب الفلسفة الحسیہ “ میں لکھتا ہے کہ:
 ” رول آف نیچر عورت کو منزلی زندگی کے لیے مخصوص رکھتا ہے، یہ قانون الٰہی اس درجہ صحیح اور محقق ہے کہ اگر اس کی مخالفت میں سینکڑوں باطل خیالات قائم ہوتے رہے یہ بغیر کسی نقصان یا تغیر کے سب پر غالب آتا رہا ہے۔ چنانچہ مردوں کے مشاغل میں عورتوں کی شرکت سے جو خوفناک نتائج اور فساد پیدا ہورہے ہیں ان کا علاج یہی ہے کہ دنیا میں مرد پر عورت کے جو مادی فرائض ہیں ان کی حد بندی اور تعین کردی جائے ۔


علوم مادیہ کا ایک ماہر ژول سیمان لکھتا ہے کہ:
 ” عورت کو چاہیے کہ عورت رہے ، ہاں بے شک عورت کوچاہیے کہ عورت رہے، اسی میں اس کے لئے فلاح ہے اور یہی وہ وصف ہے جو اس کو سعادت کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ قدرت کا یہ قانون ہے اور قدرت کی یہ ہدایت ہے۔ اس لئے جس قدر عورت اس سے قریب ہوگی اس کی حقیقی قدر و منزلت بڑھے گی، اور جس قدر دور ہوگی اس کے مصائب اتنے ہی ترقی کریں گے۔

بعض فلاسفر انسانی زندگی کو پاکیزگی سے خالی سمجھتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ انسان کی زندگی دلفریب ، پاک اور بے حد پاکیزہ ہے بشرط یہ کہ ہر مرد اور عورت اپنے اندر مدارج سے واقف ہوجائے جو قدرت نے ان کے لیے قائم کردئیے ہیں، اور اپنے فرائض کو ادا کرے جو قدرت نے ان کے متعلق نافذ کردئیے ہیں۔‘ ‘ ۱ #
سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربار چوف اپنی کتاب ” پروسٹرائیکا‘ ‘ کے باب "Status of women" میں لکھتا ہے کہ :
 ” ہماری مغرب کی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا اور اس کو گھر سے باہر نکالنے میں بے شک ہم نے کچھ فوائد حاصل کئے ہیں اور پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا، اس لیے کہ مرد بھی کام کررہے ہیں اور عورتیں بھی کام کررہی ہیں لیکن پیداوار کے زیادہ ہونے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور اس فیملی سسٹم کے تباہ ہونے کے سلسلے میں ہمیں جو نقصانات اٹھانا پڑے ہیں، وہ نقصانات ان فوائد سے کہیں زیادہ ہیں جو پروڈکشن کے اضافے کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوئے۔

لہٰذا میں اپنے ملک میں پروسٹرائیکا کے نام سے ایک تحریک شروع کررہا ہوں، اس میں میرا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے اس کو واپس گھر میں کیسے لایا جائے، اس کے طریقے سوچنے پڑیں گے ورنہ جس طرح فیملی سسٹم تباہ ہوچکی ہے اس طرح پوری قوم تباہ ہوجائے گی۔‘ ‘ ۲#
یہ حقائق تحریک آزادیٴ نسواں کی تصویر کا ایک رخ ہے جنہیں آج اہل مغرب خود بھگت رہے ہیں مگر اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو اور بھی خطرناک ہے جسے اہلِ مغرب ، مشرق خصوصاً مسلمانوں میں عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔


تحریکِ آزادیٴ نسواں کا حقیقی پہلو:
قرآن کریم نے 1400 سال پہلے( ہی عورتوں کے حوالے سے) فرمایا تھا ، سورہ الاحزاب کی آیت ۳۳ میں ہے کہ :
” اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ “
کیونکہ یہ گھر عورتوں کی زندگی ہے اور انکی دنیا و آخرت ہے ، عورتیں یہ خیال نہ کریں کہ مرد گھر سے باہر نکل کر بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہا ہے لہٰذا میں بھی گھر سے باہر نکل کر بڑے بڑے کارنامے انجام دوں۔

بلکہ اس پر غور کریں کہ سارے بڑے کارناموں کی بنیاد یہ گھر ہے اگر انہوں نے اپنی اولاد کی صحیح تربیت کردی اور ان کے دلوں میں ایمان پیدا کردیا اور ان کے اندر تقویٰ او ر عمل صالح پیدا کرلیا تو یقین رکھو کہ اگر مرد باہر نکل کر جتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہا ہے، ان تمام کارناموں پر ان عورتوں کا یہ کارنامہ فوقیت رکھے گا کہ انہوں نے ایک بچے کی جو اللہ کا بندہ ہے، انکے ہاتھوں سونپا گیا ہے ، اس کی تربیت دین کے مطابق کردی۔

اور یہ عورتوں کے سپرد ایک بڑی اور اوّلین ذمہ داری ہے۔(از : آزادیٴ نسواں کا فریب -جسٹس(ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی)۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں بھی ہے کہ:
” اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ “ ۳#
اسی طرح اس ذمہ داری کی فضیلت بھی سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ اسلام گھر سنبھالنے کے کام کو بھی اتنا عزت کا درجہ دیتا ہے جتنا کہ باہر کے کام کو۔

کیونکہ عورت جو خدمت اپنے گھر میں بیٹھ کر انجام دیتی ہے یاد رہے کہ اس کا کوئی بدل نہیں ہے۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ : رسول اکرم ﷺکے پاس حضرت نسیبہ آئیں۔ انہوں نے کہا کہ : اے خدا کے رسولﷺ ! مرد اجر میں بڑھ گئے۔ وہ جمعہ میں اور اجتماعات میں اور جہاد میں شریک ہوتے ہیں۔ پھر ہم عورتوں کے لیے کیا باقی رہا؟ آپ ﷺنے فرمایا:
” اے نسیبہ ! تم میں سے ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ بہتر طریقہ سے رہے اور اس کی مرضی کو پورا کرے ۔

یہ انتمام اعمال کے برابر ہے جن کا تم نے مردوں کے سلسلہ میں ذکر کیا۔ “ ۴#
اس کے علاوہ جہاں ایک طرف مرد، عورتوں کے حقوق سے آزاد ہو ئے وہی اس تحریک کے علمبرداروں میں ایسی عورتیں بھی موجود تھی جو گھر و خاندان کو جارحانہ تنقید کا نشانہ بناتی تھیں ،چنانچہ ان عورتوں کے نزدیک خاندانی نظام کی تباہی اور شادی کی ضرورت کا خاتمہ تحریک نسواں کے بنیادی اہداف میں شامل ہوگیا ۔

اس حوالے سے ڈبلیو آئی جارج نے ۱۹۱۳ء کی دہائی میں اپنے ایک مضمون میں اعلان بھی کیا تھا کہ:
” تحریک نسواں کا اصل مقصد شادی کو ختم کرنا اور آزاد جنسی تعلقات کا قیام ہے۔ “ ۵#
آزادیٴ نسواں کے اس پہلو سے صلیبی سامراج اور یہودی سازشوں نے فائدہ اٹھایا اور عالم اسلام کی موجودہ نسل کو جو ، ان کا اصل سرمایہ ہے ، اس تحریک کا نشانہ بنایا ۔

کیونکہ ان کے نزدیک یہی نسل اسلامی عقیدے کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن وار کرنے والی ہے۔ اور خاص طور سے موجودہ عالم اسلام کی خاتون ،جس کے بارے میں ایک امریکی یہودی موربرجر اپنی کتاب” آج کی عربی دنیا “ میں کہتا ہے کہ:
” تعلیم یافتہ مسلمان عورت مذہبی تعلیمات سے بہت دور ہے اور معاشرے کو بے دین بنانے میں حد درجہ مفید ہے۔“
 کیونکہ ظاہر ہے ایسی عورت اپنے بچوں کے دل میں اسلام کے بیج کیسے بوئے گی ۔

عالم اسلام میں شروع ہی سے آزادیٴ نسواں ایک اہم مسئلہ رہا ہے ، جس کے لیے صلیبی سامراج اور صیہونی سازش نے پوری ایک صدی تک جدوجہد کی ہے۔ ” عالم اسلام پر حملہ“ نامی کتاب میں ہے کہ:
” مشنری (Missionary) کو ششوں کے دو مقاصد ہیں ،ایک نوجوانوں کو عیسائی بنانا اور دوسرے تمام مسلمانوں میں مسیحی افکار کی اشاعت ۔“
کیا عصرِ حاضر میں یہ مقاصد پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ؟ چنانچہ اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۴۷ پر ہے کہ :
” مشنری اگر اپنی تحریکات کے آثار کمزور دیکھیں تو اس سے نا امید نہ ہوں ،کیونکہ یہ بات بالکل سامنے آچکی ہے کہ مسلمانوں کو مغربی علوم اور آزادیٴ نسواں کی چاٹ پڑ چکی ہے ۔


 اغیار کے یہ ہتھ کنڈے مسلمانوں کے خلاف زور و شور سے چلا ئے جارہے ہیں مگر افسوس آج مسلمان ان حقائق سے بالکل بے خبر ہیں۔ مسلمان عورتوں کے لیے ان تحریکوں کا اتباع کرناآج نہ صرف ان کے لیے اخلاقی گمراہی کا باعث بن رہا بلکہ مستقبل میں ایک اسلامی معاشرے کو اخلاقی زوال اور سماجی انتشار سے بالکل اسی طرح دو چار کردے گا جیسا کہ ہم مغرب کے معاملے کو دیکھ چکے ہیں۔

جبکہ اسلام تووہ دین فطرت ہے، جس نے عورت کو اس کا وہ جائز مقام دیا ہے جس کی وہ مستحق تھی ۔ گو کفار آج آزادیٴ نسواں کے پر فریب نعرے کے پردے میں عورت کو ایک ہتھیار کے طور پر اگرچہ استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ حضرت خدیجة الکبریٰ  کی قربانی ، حضرت عائشہ کا تدبر اور حضرت فاطمة الزہرا کا ذوقِ عبادت و پردہ داری ہی مسلم عورت کی زندگی کا اصل اثاثہ ہے ۔

۶# چنانچہ قرآن پاک کی سورة الروم کی آیت نمبر ۳۰ -۳۲ میں اللہ رب العزت و العزیز الحکیم کا ارشاد ہے کہ :
” قائم ہوجاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (قائم ہوجاؤ اس بات پر ) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور ڈرو اُس سے اور نماز قائم کرو اور نہ ہوجاؤ ان مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنالیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔


حواشی و حوالہ جات :
1# پردہ اور جدید ریسرچ -محمد انور بن اختر
 2# آزادیٴ نسواں کا فریب -جسٹس(ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
 3# صحیح بخاری شریف (از ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری)، مترجم: حضرت مولانا محمد داوٴدراز ۔ ج:ہشتم، کتاب الاحکام ، رقم الحدیث : ۷۱۳۸
4# عورت ،اسلام اور جدید سائنس-حکیم محمد طارق محمد چغتائی ، ص: ۹۸
 5# غیر اسلامی تہوار- محمد اختر صدیق ، ص: ۱۰۸
 6# پردہ اور جدید ریسرچ -محمد انور بن اختر

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :