کھیل و تفریح اور اسلام۔(آخری قسط)

جمعرات 11 مارچ 2021

Faiza Khan

فائزہ خان

(گزشتہ سے پیوستہ )
4۔ نشانہ بازی:
اسلام کا ایک پسندیدہ کھیل نشانہ بازی بھی ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے کئی احادیث میں ان کے فضائل بیان کئے ہیں کیونکہ یہ کھیل جہاں جسم کی پھرتی، اعصاب کی پختگی اور نظر کی تیزی پیدا کرتا ہے ،وہاں یہ کھیل آڑے وقتوں میں اور خاص طور پر جہاد کے موقع پر کافروں کے مقابلے میں خوب کام آتا ہے ۔

قرآن کریم میں سورہٴ انفال میں باقاعدہ حکم ہے کہ :
”اے مسلمانوں ! تمہارے بس میں جتنی قوّت ہو اُسے کافروں کے لیے تیار کر کے رکھو۔“
اس آیت کی تفسیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث منقول ہے کہ:
” خبردار قوت پھینکنا ہے ،بے شک قوت پھینکنا ہے ، بے شک قوت پھینکنا ہے ۔

(جاری ہے)

“ ( مسلم شریف، بحوالہ مشکوٰة المصابیح)
(یہاں پھینکنے سے مراد تیرکو نشانے پر پھینکنا ہے )اس پھینکنے میں جس طرح تیر پھینکنا داخل ہے، اسی طرح اس لفظ میں گولی نشانہ پر پھینکنا ، راکٹ ، میزائل، بم کو ٹھیک ٹھیک نشانے تک پہنچانا بھی داخل ہے۔

اور ان میں سے ہر ایک کی مشق جہاں جسم اور اعصاب کی ریاضت ہے ،وہاں یہ سب باعثِ اجر و ثواب بھی ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ” بے شک اللہ تعالی ایک تیر کی بدولت تین افراد کو جنت میں داخل کرے گا ۔ایک تیر بنانے والا جبکہ وہ تیر بنانے میں ثواب کی نیت
رکھے،دوسرا تیر پھینکنے والا اور تیسرا تیر پکڑنے والا۔

“ (سنن دارمی، بحوالہ مشکوٰة المصابیح)
 ایک اور حدیث مبارکہ سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :
”جس نے نشانہ بازی سیکھی او ر پھر اُسے چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) اُس نے گناہ کا ارتکاب کیا۔“ (مسلم شریف،بحوالہ مشکوٰة المصابیح)
لیکن ضروری ہے کہ یہ نشانہ بازی بھی بامقصد ہو یعنی ان چیزوں کے ذریعے نشانہ بازی کی مشق کی جائے ،جو آئندہ چل کر جہاد میں کام آئے ورنہ بے مقصد نشانہ بازی سے ممانعت کی گئی ہے۔

حضرت عبداللہ بن معفلرضی اللہ عنہنے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کنکریوں سے نشانہ لگا رہا ہے ،آپ رضی اللہ عنہنے فرمایا کہ : ”کنکر بازی نہ کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے کنکریاں پھینکنے سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ اس سے نہ شکار ہو سکتا ہے نہ دشمن زخمی ہوتا ہے ۔ہاں یہ کنکری کسی کا دانت توڑ دیتی ہے اور کسی کی آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔

“ اسی بناء پر بے مقصد غلیل بازی کو بھی ناپسند کیا گیا کہ وہ محض فضول حرکت ہے جس کا کوئی صحیح مقصد نہیں۔غرض ایسی بامقصد نشانہ بازی جو آئندہ چل کر جہاد میں بھی کام آسکے اسلام کا پسندیدہ کھیل ہے، اس مقصد کے لئے بندوق کا شکار بھی پسندیدہ کھیل ہے ،بشرطیکہ وہ بھی شرعی حدود میں ہو ۔ ۱ #
5۔ تیراکی (Swimming):
اسلام میں تیراکی جیسے مشغلے کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی تیراکی کرتے اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکو بھی اس کی دعوت دیتے تھے۔چنانچہ ،
 ایک بار ایک تالاب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہمتیر رہے تھے ۔آپ نے تیرنے والوں میں سے ہر ایک کی جوڑی مقرر فرمادی کہ ہر آدمی اپنے جوڑی کی طرف تیر کر پہنچے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہجوڑی دار قرار پائے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرتے ہوئے ان تک پہنچے اور جا کر ان کی گردن پکڑلی ۔

(بحوالہ مشکوٰة، آداب زندگی)
عرب میں خاص کر حجاز میں تیرنے کی ضرورت کم پڑتی ہے ۔ اس کے باوجود خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمری میں اپنی ننھیال کے کنویں میں تیرنا سیکھا تھا اور اس کی آئندہ اوروں کو بھی ترغیب دیتے رہے۔ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
 ” بنی عدی بن النجار کے حوض میں، میں نے اچھی طرح تیراکی سیکھ لی تھی ۔


تیرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مشغلہ بھی تھا اور احباب کے ساتھ کبھی کبھار تالاب میں تیرا کرتے ، کبھی بارش ہوتی تو تہہ بند باندھ کر نہا یاکرتے، کبھی تفریحاََکسی کنویں میں پاؤں لٹکا کر اس کے دہانے پر بیٹھتے تھے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہمسے بھی تیراکی کا مقابلہ ثابت ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ”ہم حالتِ احرام میں تھے کہ مجھے عمر فاروق رضی اللہ عنہکہنے لگے : آؤ ! میں تمہارے ساتھ غوطہ لگانے کا مقابلہ کروں ،دیکھیں ہم میں سے کس کا سانس لمبا ہے۔

‘ ‘ ۲ #
6۔ تفریح طبع کے لئے فرصت میں اچھے اشعار سننا سنانا:
 حضرت عمرو بن الشریداپنے والد حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ”میں ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سواری پر بیٹھا چلا جا رہا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے مجھ سے فرمایا : ’کیا تمہیں اُمّیہ بن ابی ا لصلت کے اشعار یاد ہیں؟‘ میں نے کہا: جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ سناؤ۔

‘ میں نے ایک شعر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ او ر ‘ میں نے ایک اور شعر سنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : ’ اور کچھ ۔ ‘ یہاں تک کہ اسی طرح میں نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو سو( ۱۰۰) شعر سنائے۔“
اسی طرح حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی خود بھی اشعار پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ غزوہٴ خندق کے موقعہ پرحضورصلی اللہ علیہ وسلم خندق سے مٹی منتقل کر رہے تھے۔

آپصلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹ مبارک مٹی سے اٹی ہوئی تھی اور زبان مبارک پر یہ اشعار تھے:
 ’ واللّٰہ لو لا اللّٰہ ما اھتدینا
 اللہ کی قسم! اگر اللہ کی ذات نے رہنمائی نہ کی ہوتی تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے
ولا تصدقنا ولا صلینا
 نہ خیرات کرتے نہ نماز پڑھتے
فانزلن سکینة علینا
 ( اے اللہ! ) ہم پر سکینت نازل فرما
وثبت الاقدام ان لاقینا
 اور کافروں سے جنگ میں ہمیں ثابت قدم فرما
ان الاولیٰ قد بغوا علینا
 ان کافروں نے ہم پر چڑھائی کی ہے
اذا اراودا فتنة ابینا
 اگر یہ لوگ ہمیں فتنوں میں مُبتلاکرنے (اسلام سے پھرنے) کی کوشش کریں گے
تو ہم انکار کر دیں گے ‘
حضورصلی اللہ علیہ وسلمجب ان اشعار کے آخر میں ’ابینا(ہم انکار کردیں گے)‘ پر پہنچتے تو آواز بلند کر کے فرماتے: ”ابینا! ابینا!“ (سنن الکبری للبیہقی)
اسی طرح حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کے علوم میں طویل عرصہ تک منہمک رہتے پھر تفریح طبع کے لئے اپنے ساتھیوں سے فرماتے : ”آؤ منہ کا ذائقہ تبدیل کریں ۔

“ چنانچہ اخبار و اشعار کا تذکرہ کر کے نشاط حاصل کرتے ۔ (احکام القرآن از مفتی محمد شفیع )
 حضرت عطا ء رحمتہ اللہ علیہ بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ: ”اگر اشعار فحش نہ ہوں تومیں، ان کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ۔“ (سنن الکبری للبیہقی)
 ان روایات سے معلوم ہوا کہ فرصت کے لمحات میں (مثلاََ سفر وغیرہ میں ) اگر اچھے اشعار کے ذریعے تفریح طبع حاصل کی جائے تو شرعاََ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔

بلکہ تفریح طبع کے لئے تو مناسب سفر کی بھی شرعاََ گنجائش ہے۔ ۳# یہ وہ چند کھیل و تفریح کے مناسب ذرائع و امور تھے جن کا احادیث و آثار میں با قاعدہ ذکر آیا ہے ۔ حدودِ شریعہ کو قائم رکھتے ہوئے ان کھیلوں کے جواز میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
 غرض اسلام زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرنے کی تاکید اور اپنا قیمتی وقت بہت دیکھ بھال کر صحیح مصرف پر خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور ساتھ ہی وہ انسان سے فحاشی ، منکرات اور محرمات سے گریز کروا کے اس کے اخلاقی وجود کو مفاسد سے محفوظ رکھتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تفریحات پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے بلکہ انھیں صحیح رخ پر استوار کردیا ہے۔ یعنی جائز حدود میں رہ کر خوشی منائی اور حاصل کی جا سکتی ہے ، لیکن اسے ایسی صورت نہیں دینی چاہیئے جو انسان کے اخلاقی وجود کے لئے غلاظت اور زوال کا ذریعہ ہو ۔۴#
ختم شد
حواشی و حوالہ جات:
1 # کھیل اور تفریح کی شرعی حدود۔

مولانا محمود اشرف عثمانی۔ادارہ اسلامیات پبلشرز۔جون،۱۹۹۴ء۔ ص: ۲۳-۲۶
2 # سنت نبویﷺ اور جدید سائنسی تحقیقات۔محمد انور بن اختر۔ ادارہ اشاعت اسلام،کراچی۔۲۰۰۹ء ۔ ج: اوّل ، ص: ۲۳۰-۲۳۵
3 # کھیل اور تفریح کی شرعی حدود۔ مولانا محمود اشرف عثمانی۔ادارہ اسلامیات پبلشرز۔جون،۱۹۹۴ء۔ ص: ۴۰- ۴۲
4 # استفہام۔طالب محسن۔ المورد، لاہور۔مئی ۲۰۰۹ء ۔ اسلام اور تفریح ، ص: ۱۷۴

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :