کشمیراورہم

بدھ 6 فروری 2019

Farrukh

فرخ

پانچ فروری…. ایک مختصر خیال کے مطابق پاکستانیوں کے لیے چھٹی کا دن، مگر یہ چھٹی معمول کے مطابق نیندپوری کرنے کیلے نہیں بلکہ محبت اور یکجہتی کی ایک شمع جلانے کا دن ہے۔
یوم یکجہتی کشمیر ہر سال 5 فروری کو آزاد کشمیر اور پاکستان میں باہمی محبت کے جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے اور پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کا عہد کرتے ہیں۔

بھارتی حکمرانوں کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ تنازعہ کشمیر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر حل کیا جائے۔ مسئلہ کشمیر درحقیقت تقسیم ہند کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جس طرح شمالی ہند میں پاکستان مسلم اکثریت کی بنیاد پر وجود میں آیا، اسی اصول کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو بحیثیت آزاد ریاست، پاکستان سے الحاق کرنا تھا۔

(جاری ہے)

لیکن ہندؤوں اور انگریزوں کی ملی بھگت سے ریاست جموں و کشمیر کا سازش کے ذریعے بھارت سے ناحق الحاق کیا گیا۔

اْس وقت کے کشمیری مہاراجہ اور بھارت کے درمیان گٹھ جوڑ ہوا اور بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر کے اسکے بڑے حصے پر نا جائز طریقے سے قبضہ کر لیا۔ کشمیری عوام نے پاکستان کی حمایت کے ساتھ ایک آزادی کی تحریک کا آغاز کیا اور بہت قریب پہنچ چکے کہ بھارت سے الگ شناخت حاصل کر لیں تو بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کے مابین تنازعہ کو بات چیت سے حل کروانے کی کوشش کی اور دو قرار داد منظور کیں، جن میں نہ صرف کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا بلکہ یہ طے ہوا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائیگا۔

پہلے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے یہ وعدہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے فراہم کریں گے۔ لیکن بعد میں بھارتی حکمران اپنی روایت کے مطابق وعدہ خلافی سے باز نہ رہے اور کشمیر کو اقوام متحدہ میں تسلیم کیے گئے حقوق دینے سے انکار کر دیا۔ کشمیری لیڈرز کا بھارتی حکومت سے جائز مطالبہ ہے کہ وہ 1947 میں بھارتی قائدین کی طرف سے کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔

بھارت نے 9 لاکھ فوجیوں کی بندوقوں کے زیر سایہ کشمیر کے متنازعہ خطے میں کچھ بھی کر گزرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ حراستی ہلاکتوں ، خواتین پر دست اندازیاں، عزتوں پر حملے اور املاک کی تباہی روز کا معمول بن چکا ہے۔ پاکستانی اور کشمیری عوام کے دل ایک دوسرے کے لیے محبت کے جذبے سے بھرے ہیں مگر کٹھ پتلی حکمرانوں کے لیے یہ تنازعہ صرف سیاست چمکانے کا موضوع بن کر رہ گیا ہے۔

بھارتی حکمرانوں کی ستم ظریفی ملاحظہ کی جائے کہ وہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پہلے بھارتی وزیر اعظم کے وعدے پر عمل نہیں کرتے بلکہ وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ آزادکشمیر اور شمالی علاقوں پر اپنا حق جتاتے رہے ہیں۔ کشمیریوں نے اپنی آزادی کی جدوجہد کے ذریعے بھارت کی فوجوں کے خلاف جنگ کر کے ان علاقوں کو آزاد کرایا تھا۔ بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے پر بضد ہیں۔

ہندوستانی حکومت عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی حکمران پاکستان پرکشمیر میں دہشت گردی کا بے بنیاد الزام عائد کر رہے ہیں۔
بھارتی حکمران اور فوج شاید بے خبر ہیں کہ جب کوئی فرد یا قوم آزادی کا ارادہ کر لیتی ہے تو اْسے زیادہ دیر قید نہیں رکھا جا سکتا، کشمیر گذشتہ 70 سال سے آزادی کی تلاش میں سفرکررہا ہے اور اس راستے پر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرتا آیا ہے۔

قابل غور ہے کہ اس میں بزرگ، جوان، عورتیں، بچے سبھی شامل ہیں۔ہندوستان اپنی نو لاکھ فوج کو استعمال کرنے کے باوجود کشمیریوں کی تحریک آزادی کو روک نہیں سکا اور وہ زیادہ دیر تک طاقت کے استعمال سے کشمیریوں کو غلام نہیں رکھ سکتا۔بھارت تنازعہ کشمیر پْر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہے تو اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنا ہوگا۔

ورنہ کشمیر اور پاکستان اْس مذہب سے منسلک ہیں کہ ایک مسلمان بھائی کو کانٹا چبھنے کا درد دوسرا مسلمان اپنے پاؤں میں محسوس کرتا ہے۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کشمیر کے شانہ بشانہ رہیں گے اور تنازعہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق شفاف استصواب رائے ہے، جوکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کروایا جائے۔
5 فروری کے عالمی دن کو منانے کا مقصد کشمیریوں کی تحریک آزادی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا اور ملک بھر میں جمہوری احتجاج اور جلسوں کے ذریعے اقوام متحدہ پر مسئلہ کشمیر کے حل کی لیے دباؤ ڈالنا اور عالمی رائے عامہ کی اس موضوع پر توجہ دلانا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :