قوم پوچھتی کیوں نہیں؟

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Faraz Ahmad Wattoo

فراز احمد وٹو

 دنیا میں زیادہ تر جنگیں زن، ذر اور زمین کی خاطر ہی لڑی گئی ہیں۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، ہر مذہب کے لوگوں نے ساری جنگیں انہی تین چیزوں کی خاطر لڑی ہیں اور مذہبی نظریے کا جنگ میں عمل دخل بہت ہی کم رہا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں یہی لگتا ہے کہ تاریخ میں بھی اور آج بھی دنیا کی ہر جنگ اور ہر فساد کا پیش خیمہ مذہب ہے۔ اس کی وجہ اگر بادشاہوں کی تاریخ پڑھی جائے تو محض یہی نکلے گی کہ مذہب کا عمل دخل تو محض نام کی حد تک تھا۔

ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ مذہبی جنگیں بڑی ہی شاذونادر ہوئی ہیں۔ انسان اپنے عزائم پورے کرنے کیلیے طاقت چاہتا ہے اور مذہب انسانوں کو طاقت اور جذبہ دیتا ہے جس کی سمت بادشاہ کی ترجیحات طے کرتی ہے۔
 دنیا میں کچھ جنگیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بعد قوم کو ملک یا سلطنت مل جاتی ہے۔

(جاری ہے)

پرانے زمانے کی ساری جنگیں ایسی ہی ہوتی تھیں مگر پھر دنیا کی تاریخ نے صحیح Dialectics کے اصولوں کے تحت پلڑا کھایا اور سلطنتوں اور بادشاہتوں کی جگہ Nation States اور جمہوری حکومتیں بننے لگیں۔

اس تبدیلی نے جنگ کی نوعیت اور مقاصد بھی بدل دیے۔ لہٰذا ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو نہ کشمیر کی زمین ملی نہ کوئی بڑی امداد ہاتھ آئی جس سے GDP اور گروتھ میں اضافہ ہوتا‘ اس کے نتیجے میں بھارت بھی نہ لاہور میں ناشتہ کر سکا نہ ہی پاکستان توڑ سکا‘ مگر اس جنگ نے دونوں ممالک میں اس سوچ اور جذبے کو جلا بخش دی جسے پچھلے 200 سال سے انجینیئر کیا جا رہا تھا۔

دونوں ممالک کو زمین اور ذر پہلے بھی میسر تھا‘ اس جنگ کے نتیجے میں ان کی زمین اور ذر کو تاریخ یعنی ماضی میں جیتی قومیں مل گئیں۔
 کسی بھی ملک یا قوم کی سوچ بدلنی ہو تو اس کا نصاب اور اس کے ہیروز بدلنے پڑتے ہیں۔ اس سے قومی سطح پر ایک مائنڈ سیٹ کو ٹرین کیا جاتا ہے اور میڈیا کے ذریعے اسے فیڈ کرنے کا پروسیس بھی جاری رہتا ہے۔ مذہب کا بھی ہر موقع پر بھر پور استعمال کیا جاتا ہے۔

خصوصاً اولین زمانے میں کافروں کے خلاف اس کی سٹرگل اور پیش آنے والی جنگوں کی کہانیوں کو نصاب اور مساجد کے جمعہ کے خطبے میں عام کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک مذہبی فکر کی سرپرستی ریاستی سطح ہوتی ہے۔ اس سے لوگوں کو پتہ بھی نہیں چلتا اور وہ وہی باتیں کرنے اور سوچنے لگتے ہیں جو کہ ریاست چاہتی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کسی بھی چیز کو اوور ڈوز کرنے کا نتیجہ بھیانک ہوتا ہے لہٰذا جلد یا بدیر اس کے سائیڈ افیکٹس کی طرف بھی ریاستی توجہ چلی جاتی ہے اور پھر مذہب کی بجائے قومیت کے نعرے لگوانا ترجیح بن جاتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ تب تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوتا ہے۔


 کسی بھی نظریے یا فکر کو ریاستی سطح پر پروموٹ کرنا ایک ناپسندیدہ امر ہے کیونکہ اس سے ریاست جانے انجانے میں ان لوگوں کی مخالفت کرنے کا جرم کر بیٹھتی ہو جو اس نظریے کے مخالف ہوتے ہیں۔ ریاست کسی نظریے کی حامی ہونے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور اس کا پرچار کرنا تو بہت ہی دور کی بات ہے۔ مذہبی یا قومیتی انجینیئرنگ کے نتائج اگر چیک کرنے ہیں تو صرف آج کے پاکستان اور بھارت پر نظر ڈالیے‘ آپ توبہ کر لیں گے نظریہ انجینیئر کرنے سے!
 برِصغیر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

یہاں ہندومت‘ بدھ مت اور جین مت کے پیروکار ہزاروں سالوں سے آباد تھے۔ پھر مسلمان‘ عیسائی‘ یہودی اور بہت سی دیگر ممالک کے لوگ بھی یہاں آتے اور آباد ہوتے رہے۔ چونکہ حکومت مسلمانوں کی تھی‘ سو باقی مذاہب کے لوگ خراج دیتے تھے۔ اکبر نے یہ معاف کروا کر سب کو ہر معاملے میں برابری دے دی۔ اسے آج تک بھارت میں بھی شہنشاہِ ہند مانا جاتا ہے۔

یہاں سینکڑوں سال نہ صرف ہندو اور مسلمان بلکہ کئی اور مذاہب کے لوگ اکٹھے رہے ہیں اور جہاں تک اس نا چیز کا علم ہے‘ EIC کی آمد سے قبل کبھی مذہبی بنیاد پر کوئی تصادم بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
 انگریز نے یہاں Divide and Rule کے تحت حکومت کی ہے۔ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ چند لاکھ کروڑوں پر حکومت کریں۔ انہوں نے ہندوؤں کے جذبات کا فائدہ اٹھایا اور ریاستی سطح پر مسلمانوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔

اس کا فائدہ ہندوؤں کو ہوا ضرور لیکن مسلم مخالفت کی وجہ سے ان کی سوچ اور  فکر والے صفحے  پر ایک نشان پڑ گیا جو گہرا ہو کر ان کے ورق ہی کالے کرتا نظر آتا ہے۔ جنگِ آزادی سے قبل ہمارے علاقوں میں ہندو یا یہودی ہونا ایک گالی نہیں تھا۔ بھارتی علاقوں میں بھی مسلمانوں کے لیے نفرت نہیں تھی۔ سب مل کر خوش رہتے تھے۔ ایک ہی محلے میں رہ کر بھی ان کے ادیان، زبانیں اور ثقافت خطرے میں نہیں تھے۔

مسلمانوں نے یہ خدشات تبھی محسوس کیے جب ہندوؤں نے انگریزوں کے زیرِاثر مسلمانوں کی مخالفت شروع کر دی۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں ہندو مخالف جذبات ابھرے۔ دونوں قوموں کی اس نفرت کو تقسیم نے جلا بخشا اور بعد کی جنگوں نے اسے عروج پر پہنچا دیا۔
پاکستان اور بھارت دونوں میں غربت اور معاشرتی نا برابری بہت زیادہ ہے۔ دونوں کے مسائل تقریباً ایک جیسے ہیں لیکن سمتیں اور ترجیحات بالکل متوازی ہیں۔

اس لیے کیا یہ درست وقت نہیں کہ ہم دونوں ہمسائے ان نظریات کو ری چیک کریں جو کسی کی دشمنی میں یا کسی نظریے کے زیرِاثر ہونے کی وجہ سے ہماری مذہبی اور قومی فکر کا حصہ بن گئے ہیں۔ اگر ہمارے ملک معاشی، تعلیمی، انسانی حقوق، صحت اور انسانوں کے معیارِ زندگی سمیت ہر تقریباً ہر شعبے میں ہی پیچھے رہ گئے ہیں اور ہم سے بعد میں آزادی پانے والے آگے نکل گئے ہیں‘ تو کیا یہ کافی نہیں کہ ہم احمقوں کی جنت سے نکل آئیں۔


 اگر پاکستان میں دن دہاڑے قتل کرنے والے آزاد ہو رہے ہیں‘ دارالحکومت میں سے صحافی غائب کیے جا رہے ہیں جبکہ جیلیں ایسے مجرموں سے بھری پڑی ہیں جنہیں اپنے جرم کا بھی علم نہیں‘ تو کیا یہ عاجز سوال کر سکتا ہے کہ قوم سو کیوں رہی ہے؟ یہ اپنے ضمیر سے کیوں نہیں پوچھتی کہ پاکستان میں روزانہ سینکڑوں ’’جارج فلائیڈ قتل‘‘ جیسے واقعات کا ہونا بھی اس کی پیشانی پر بل کیوں نہیں ڈالتا؟ یہ قوم کیوں نہیں پوچھتی کہ ہمیں نفرت اور دشمنی کا سبق کیوں پڑھایا جا رہا ہے؟ پاکستان اپنے بننے کے اتنے سال بعد بھی یہ سیکیورٹی سٹیٹ کیوں ہے؟ یہ کیوں دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح معاشی اور تعلیمی لحاظ سے ترقی نہیں کرتا؟یہاں صحت اور تعلیم کا معیار کب ٹھیک ہو گا؟ ایسا کیا ہے جو ہمیں ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیاں بنانے سے روکے ہوئے ہے؟ ہمیں اللہ کے نام پر پڑھنے کا درس دیا گیا تھا‘ یہ کس نے ہمیں تلوار اور بندوق دے کر لڑنے کا بول دیا اور ہمیں آج تک لڑا رہا ہے۔

یہ کون ہے جو ہمسایوں سے جنگ کو جناح کے پاکستان کی طرف ایک قدم قرار دے رہا ہے؟ یہ ہمیں کیسا نظام اور کیسے حکمران نصیب ہوئے ہیں؟ ہماری قوم ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ سب کیوں نہیں پوچھتی؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :