ہم ہجوم نہیں مضبوط قوم ہیں

منگل 8 دسمبر 2020

Fatima Ali

فاطمہ علی

ہم ایک مضبوط قوم ہیں ایک اللہ، ایک رسولﷺ، ایک کتاب مکمل ضابطہ حیات قرآنِ پاک کے پیر و کار، ہم ہجوم کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہجوم تو وہاں ہوتا ہے جہاں کئی دیوی دیوتا، ذات پات میں تقسیم معاشرہ اور چھوت چھات کا تصور ہو، جہاں بر تری ہی صرف تقو ی کی بنیاد پر ہواور محمودو ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں۔ وہاں ہجوم کیسے ہو سکتا ہے۔ امتِ مسلمہ جسدِ واحد کی طرح ہے جسم کے ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم درد کو محسوس کرتا ہے۔

امتِ مسلمہ کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جس میں اس کے مضبوط قوم ہونے کی واضح اور روشن نشانیاں ملتی ہیں۔ آج میں 16 دسمبر 2014ء کو پیش آنے والے دلخراش، واقعے کے حوالے سے اپنی قوم کی مضبوطی اور عزمِ جواں پر روشنی ڈالوں گی۔ 16 دسمبر 2014ء وہ ڈھلتا، ٹھٹھرتا، تاریخ دن، کوئی بھی انسان اسے نہیں بھلا سکتا۔

(جاری ہے)

اس دن ہمارے ارضِ پاک میں وہ دلخراش، دل ہلا دینے والے ہر آنکھ کو اشکبار کرنے والے سانحہ وقوع پذیر ہوا۔

16دسمبر کی صبح بچوں کو معمول کے مطابق اسکول روانہ کر کے ہر ماں اپنے گھر کے روز مرہ کے کام کرنے میں مصروف ہو گئی۔ لیکن تھوڑی دیر میں پشاور آرمی بپلک سکول میں آنے والی قیامت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ملک دشمن عناصر دہشت گردوں نے حملہ کر کے ان معصوم بچوں کو گو لیوں سے چھلنی کر دیا۔ ہر گھر میں ہر شخص ٹی وی کے سامنے بیٹھا ان بچوں کے لیے دعا گو تھا۔

لیکن ٹی وی کے سامنے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اس قیامت سے ذیادہ بھی کوئی قیامت ہو سکتی ہے۔ نظروں کے سامنے انسانی اعضاء کے ٹکڑے اور کانوں میں دھماکوں کی آوازیں آرہی تھیں سوشل میڈیا پر یہ خبر ہر طرف پھیل چکی تھی۔ اس سب کو دیکھ کر دماغ پھٹنے لگا اور دل، دل تو شاید ابھی باہر نکل کر آجائے گا۔  وہ مائیں جن کے بچے ان کے پاس تھے وہ ان کے تحفظ کے لیے دعا گو اور اپنے پیارے پاکستان کے 141 معصوم پھولوں کے لیے جو لمحہ بھر میں دشمنوں نے چھین لیے ان کے لیے اشکبار تھیں۔

قاتلوں نے یہ پھول ایسے چھینے کہ دیکھنے والی آنکھیں پتھرا گئیں، سننے والی سماعتیں سن ہو گئیں اور ہوش مندوں کے دماغوں نے ہوش کھو دیے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو بہت برا ہوا ہے؟ کس نے کیا ہے؟ کرنے والے کا مقصد کیا تھا؟ ایسے بے شمار سوالات دماغوں میں اٹھے ہوں گے۔ ماوں نے سوچا ہو گا کہ پیارے بچوں کا کیا قصور تھا؟ کاش ان درندہ صفت انسانوں کو کچھ تو خوفِ خدا ہوتا، کاش کے ذرہ بھر ان کے دلوں میں رحم آجاتا تو بہت سی ماوں کی گودیں اجڑنے سے بچ جاتیں۔

میرا کیا ہر مسلمان کا دل کہتا ہے تم انسان نہیں درندے ہو تمہارے سینے میں دل ہی نہیں تو رحم کہاں ہو گا؟ رحم تو رحمت للعا لمین ﷺ کے پیروکاروں کے دل میں آتا ہے تمہارے جیسے کفار کے دل میں اس جذبے کا گزر کہاں۔ معصوم پھولوں کو روندنا تمہاری درندگی اور ظلم کی واضح مثال ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ تم ان  ہتکھنڈوں سے ہمیں ڈرا لو گے؟ زندگیاں تو بحال ہو جائیں گئیں مگر تمہارا کیاہو گا؟ کیونکہ اب کی بار ظالموں،تم نے، یہ ظلم ڈھایا ہے، میرے معصوم بچوں کی مکتب گاہ کو ہی گرا دیا ہے، آؤتمہیں پھٹے بستے بکھری کتابوں اور ٹوٹے قلم دکھا ؤں۔

ناپاک ہا تھوں سے لکھی ہے تم نے، وہ داستانِ ظلم سناؤں، سنو ماؤں کی گودیں اجڑی ہیں، بہنوں سے بھائی دور ہوئے، سنو تمہارا انجام بھیانک ہو گا، تم نے بندوق چلاتے ہوئے لمحہ بھر سوچا ہوگا کہ کہاں سے شروع کروں گا۔ مگر میرا اللہ بس فیصلہ سنائے گا اور ہو جائے گا تم تو انسانیت کے نام پر دھبہ ہو چہرے پر سنتِ رسولﷺ سجا کر تم نے اپنے گندے اور مذ مو م مقاصد کی تکمیل کی ہے۔

مجاہدین کا بھیس بدل کر انھیں بد نام کرنے کی نا پاک سا زش رچائی ہے۔مجاہد کون ہے؟ مجاہد تو امتِ مسلمہ کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔ مجاہد تو سنت کے مطابق جہاد کرتا ہے جس میں قرآن کا حکم مانا جاتا ہے قرآن کا حکم ہے ”اس سے لڑو جو تم سے لڑتا ہے“ مجاہد کے ہاتھ سے تو امن پسند اور بے گناہ کافر بھی محفوظ رہتا ہے ناکہ یہ معصوم جانیں۔ تم جو بھی کر لو ہمارے حوصلے کمزور نہیں کر سکتے ہمارے جذبے کل بھی زندہ تھے آج بھی زندہ ہیں کیو نکہ
ہم ہجوم نہیں مضبوط قوم ہیں
سودا نہیں مہنگا یہ سمجھ لو
کہ جاں میں اپنی لٹا دوں گا
مگر اے ارضِ وطن مجھ کو
ٹکڑوں میں تو گوارہ نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :