ملمع

ہفتہ 19 ستمبر 2020

Fayyaz Majeed

فیاض مجید

ہاجرہ مسرور کا افسانہ ہے  جس کا نام ملمع ہے۔ اس افسانے میں ایک لڑکی ہوتی ہے۔ جو دوسرے شہر میں اپنے چچا سے ملنے جا رہی ہوتی ہے ہے۔جب وہ ریلوے اسٹیشن پر رکتی تو اسے ایک امیر لڑکا نظر آتا ہے۔وہ لڑکی خود کو اس لڑکے کے سامنے امیر ظاہر کرنے لگی۔لیکن اس لڑکی کا ٹکٹ تھرڈ کلاس ڈبے کا تھا۔جب ٹرین آئی تو چھپ کر تھرڈ کلاس ڈبے میں سوار ہوگئی۔لیکن جب وہ ٹرین سے اترنے لگی ۔

لڑکے نے اسے تھرڈ کلاس ڈبے سے اترتے ہوئے دیکھ لیا۔بعد میں تانگے پر بیٹھ کر اس بات پر رونے لگے کہ لڑکے کو اس کی حقیقت معلوم ہو گئ ہے۔بعد میں جب وہ چچا کے گھر گئی۔اور ان کے گھر کی چھت پر کھڑی تھی پاس میں اس نے گھر دیکھا اور اپنی چچازاد  سے پوچھنے لگی کہ یہ گھر کس کا ہے؟تو اس نے بتایا کہ یہ گھر ایک بوڑھی عورت کا ہے۔

(جاری ہے)

جس کا شوہر فوت ہو چکا ہے۔

اور بیچاری کپڑے سی کر پیٹ پالتی ہے ۔اس کا ایک بیٹا جو شہر میں پڑتا ہے۔پھر اچانک چھپر کے نیچے لیٹے ایک نوجوان نے کروٹ بدلی تو لڑکی حیران ہوگئ کہ وہ امیر نوجوان اس بڑھیا کا بیٹا ہے۔نوجوان نے فورا اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
ملمع کا اصل معانی چاندی پر سونا چڑھانا ہوتا ہے۔تاکہ چاندی سونے کی طرح دیکھنے لگے۔پہلے کبھی نہ ٹوٹنے کے لیے یہ کام سنار کیا کرتے تھے۔

لیکن آج کل ہر کوئی ملمع سے کام لیتا ہے۔جس سے بھی ملو وہی اپنی اصلیت چھپانے کے چکروں میں ہے۔ میرے نزدیک ہمارے ملک میں کرپشن کے بڑی  وجوہات میں سے ایک ملمع بھی ہے۔کہ کوئی اپنی حقیقت دوسروں کے سامنے لانے کو تیار نہیں ہوتا۔ بیوروکریٹس کو ہی دیکھ لیجئے  اپنے دوسرے افسران کے ساتھ اپنا معیار برقرار رکھنے کےلئے بہتی گنگا میں صرف ہاتھ نہیں ڈالتے بلکہ پورا نہاتے ہیں۔

کوئی ایک آفیسر جس کی بیک بون مضبوط ہوتی ہے وہ اپنا معیار اعلیٰ رکھتا ہے۔ لیکن غریب نوجوان جو محنت کرکے بڑا آفیسر بن گیا وہ اس آفیسر جیسی پرتعیش زندگی نہیں گزار سکتا۔ لیکن خود کو امیر ظاہر کرنے کے لیے کرپشن کے سمندر میں پورا نہاتا ہے۔ ہمارے اینکرزجو چالیس لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں۔  وہ اکثر بک جاتے ہیں وجہ صرف معیار برقرار رکھنے کے لئے۔


یونیورسٹیز میں چلے جائیں وہاں کوئی نوجوان اپنا حقیقی دکھانے کو تیار نہیں لڑکیاں ہیں یا لڑکے سب اپنے آپ کو بڑی چیز  ظاہر کرنے کے چکر میں ہیں۔ اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کا حقیقی پول بالآخر کھل ہی جاتا ہے۔تب شرمندگی کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔نئے شخص کے ساتھ آپ کو اچھے انداز میں ضرور پیش آنا چاہیے۔لیکن زمانے کے ٹرینڈز کے پیچھے خود کو برباد کرنا کون سی دانش وری رہی ہے۔

لیکن صرف اسی ملمع کی خاطر ہم میں سے اکثر لوگوں کو رونے کی عادت پڑ گئی ہے کہ کبھی اپنی تنخواہ پر راضی نہیں ہوتے اور جتنا زیادہ مل جائے اتنا کم سمجھتے ہیں ہیں حالانکہ قناعت ایک بہت بڑی دولت ہے۔ آپ کو تو شرمندہ اس بات پر ہونا چاہیے کہ آپ آگے نہیں بڑھ رہے بلکہ آپ رکے ہوئے ہیں۔اللہ نے جس گھر میں اور جو جو ماں باپ عطاکیے  شکر کرو اور خود آگے بڑھو دنیا کے اکثر عظیم ترین ہستیوں کے والدین غریب ہوتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ کا سب سے امیر ترین شخص راک فیلر کا والد خانہ بدوش تھا۔اور اس کا والد ایک عطائ حکیم تھا جو چل پھر کر لوگوں کا علاج کیا کرتا تھا۔ بس آپ کے اندر آگے بڑھنے کی جستجو ہونی چاہیے ملمع  چڑ ہانےکا کیا فائدہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :