ففتھ جنریشن وار

ہفتہ 22 اگست 2020

Fayyaz Majeed

فیاض مجید

ففتھ جنریشن وار پر کچھ لکھنے سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہوں گا۔ ایک مرتبہ ایک سادہ لو آدمی منڈی میں اپنا بکرا لے کر گیا۔ ابھی وہ منڈی میں پہنچا ہی تھاکہ ایک آدمی آیا اوراسے ایک بھیڑ د ی اور کہا اسے تھوڑی دیرکے لیے اپنے پاس رکھنا میں ابھی آرہا ہوں۔وہ بھیڑ لے کر کھڑا ہو گیا۔ایک بیوپاری آیااور اس آدمی سے پو چھا یہ بھیڑ کتنے کی بیچو گے۔

آدمی نے کہا یہ میرے پاس امانت ہے۔بیوپاری نے کہا یہ بھیڑ تو بہت قیمتی ہے میں آپ کو اس کے ۵۲ تا ۶۲ ہزار دے سکتا ہوں۔ آدمی نے کہا میں اپنا بکرا بیچنے آیا ہوں آپ اس کو دیکھیں۔بیوپاری نے کہا یہ بکرا میرے کسی کام کا نہیں یہ مجھے کوئی منافع نہیں دے گا۔اس کی قیمت لگ بھگ ۲۱،۳۱ ہزار ہے۔آدمی بولا میرا بکرا زیادہ قیمتی ہے میں نہیں دیتا ۔

(جاری ہے)

بیوپاری بولا آپ کو سبھی یہی ریٹ بولیں گے اچھا ہے مجھے دے دیں میں آپ کو زیادہ دے رہا ہوں ۔

آدمی نے دینے سے انکار کر دیا۔
تھوڑی دیر بعد ایک اور بیوپاری آیا اور اس نے پہلے کی طرح بھیڑ کی قیمت زیادہ لگائی اور بکرے کا بہت کم ریٹ لگایا۔ابھی دوسرا بیوپاری گیا ہی تھا کہ بھیڑ کا مالک آگیا۔ اس آدمی نے سوچا اس مالک سے بھیڑ خرید لیتا ہوں اور اپنا بکرا بیچ دیتا ہوں۔غرض تھوڑی تکرار کے بعد اس نے بھیڑ کے مالک سے ۰۲ ہزار میں بھیڑ خرید لی اور اپنے بکرے کو ۴۱ہزار میں بیچ دیا۔

بھیڑ لے کر اس نے سوچا ان بیوپاریوں کو ڈونڈھتا ہوں جنھوں نے اس کی قمیت ۵۲ہزار لگائی تھی۔لیکن وہ کہیں نہیں ملے ۔ جب کسی اور بیوپاری کو بھیڑ بیچنے کی کوشش کی تو انھوں نے بھیڑ کی زیادہ سے زیادہ قیمت ۳۱ہزار بتائی۔کچھ دیر بعداسے اپنا بکرا کسی اور کے ہاتھوں دکھائی دیاجب اسکی قیمت پوچھی تو اس نے بکرے کی قیمت ۰۳ ہزار بتائی اور قیمت خرید ۶۲ہزار بتائی۔


تب جاکر اسے عقل آئی کہ اس کے ساتھ ففتھ جنریشن وار کھیلا جا چکا ہے۔ چونکہ آج کل 5G چلتا ہے تو جنگ بھی پھر 5G ہونی چاہیے۔ ففتھ جنریشن وار میں لوگوں کے ذہن کو تبدیل کیا جاتا ہے جیسا کہ آج کل پاکستان مین چل رہا ہے۔دشمنوں کی ایجنسیاں اربوں ڈالراس پر خرچ کر رہی ہیں۔ یقین نہیں آتا تو پاکستانی ڈراموں کو ہی دیکھ لیں۔ اسلام کی کوئی اقدار آپ کو کہیں بھی نظر نہیں آئے گی۔

دوسروں کی فلمیں جو ہمارے ملک میں چلائی جائیں گی ان میں فحاشی عروج پر ہو گی۔
 اور اس کے نتیجے میں وہ اندھیری رات آ جائیگی جس کا ذکر علامہ اقبال اپنے اس شعر میں کرتے ہیں
افسوس متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
آپ کو اپنے اسلاف کا تعلیمی نظام کہیں نظر نہیں آئے گا اگر آئے گا تو دینی مدارس میں جن کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے۔

تعلیمی نظام سارا انگریزوں کا دیا ہوا۔اگر ترقی کرنی ہے تو ان کی زبان انگلش میں ہو سکتی ہے ۔حالانکہ دنیا کی جس قوم نے ترقی کی ہے اپنی زبان میں کی ہے ۔لیکن ہمارا یہ ذہن بنایا جا رہا ہے
جب بھی کوئی سروے ہوگا ہمیشہ ہمیں اسکی خبر سنائی جائے گی جس میں ہم سب سے پیچھے ہوں گے ۔ وہ سروے ہمارے ملک کبھی ہو گا ہی نہیں جس میں ہم باقی اقوام سے آگے ہوں گے۔

تعلیمی نظام وہ ہو گا جو کسی کو آگے آنے ہی نہیں دے گا۔اور جو آگے آئے گا اس دنیا میں ہی نہیں رہے گا۔ اپنے ہر اچھے ادارے کے خلاف ابھارا جائے گا۔اپنی ہر اچھی روایت کو پرانا رواج قرار دیا جا ئے گا۔بڑے با منظم انداز میں ہمیں دوسروں کا غلام بنا دیا جائے گا۔ یقین کریں اس سے جو تباہی آئے گی اسکا مقابلہ تو ہزروں ایٹم بم بھی نہیں کر سکتے ۔ مسلہ کشمیر تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ مسلہ کشمیر سے ایک فائدہ تو ہو رہا ہے کہ اس سے فوج اور خفیہ ایجنسیاں حرکت میں رہتی ہیں اور طاقت پکڑتی رہتی ہیں۔ لیکن اگر اس جنگ کو روکا نہ گیا تو اس سے ہو والی تباہی آپ کی سوچ میں بھی نہیں آسکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :