بھائی بھائی

پیر 28 ستمبر 2020

Fayyaz Majeed

فیاض مجید

کچھ دن پہلے مشہور صحافی جنید سلیم نے پروگرام حسب حال میں کہا کہ کہ ہمارا ملک اتنا طاقتور ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے بیرونی حملہ کر کے ختم نہیں کر سکتی۔ ہمیں صرف اندرونی سازشوں کے ذریعے ہی کمزور کیا جا سکتا ہے اور ہمیں اندرونی طور پر کمزور دو بڑے طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک فرقہ واریت جب کہ دوسرا دوسرا صوبائی آتا ہے جب کہ میرے نزدیک  لسانیت بھی لیکن شاید کہ ہماری توجہ ان تمام  معاملات میں بالکل بھی نہیں ہے۔


اگر فرقہ واریت کو دیکھیں تو عراق اور شام کو کس چیز نے تباہ کیا آپس میں موجود ان کی فرقہ واریت نےوہ آپس میں دست و گریباں ہوں گئے اور دشمن نے ان کے اندر سازشیں کر کے انہیں بالکل تباہ و برباد کر دیا ہے پاکستانی طالبان  اپنے مسلمانوں پر فائرنگ کرتے تھے اور بمباری کرتے تھے تو ان نوجوانوں کے اندر ایسی کیا چیز بھر دی گئی تھی  وہ یہی فرقہ واریت تھی جو مسلمانوں کو قتل جائز قرار دیتی تھی۔

(جاری ہے)

فرعونی مملکتوں نے انھیں ایک فرقہ ایجاد کرکے دے دیا تھا جس میں خاص نظریات نہ ماننے والوں کا قتل جائز ہے اور خود مسلمان مسلمان کے خلاف آگئے یہ سپاہ صحابہ کا وجود میں آنا اور فقہ جعفریہ والوں کی طرف سے بھی اپنی تنظمیں  کھڑی کرنا ہمیں تباہ و برباد کرے رکھ سکتا تھا۔گورنمنٹ نے اس معاملے میں ایک اچھا کام کیا کہ فرقہ وارانہ لڑائیوں کو میڈیا کوریج نہیں دی جاتی تھی۔


لیکن یہ سب کافی نہیں ہے ابھی اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے واٹس اپ پر تحریروں اور فیس بک کو کس طرح کنٹرول کیا جائے گا۔ یوٹیوب کی حقیقت ٹی وی نے آڈیو کے اندر ایک انڈین میجر کی پاکستان کے خلاف پالیسی سنائیں جس میں وہ کہتا ہے کہ پاکستان کے ہر ضلع کے اندر ہم 6 دیوبندی  اور 6  بریلوی مولوی کو فنڈنگ کرنا ہوگی۔ وہ ہفتہ کے اندر دو تین ویڈیوز بنائیں جس میں دوسرے فرقے کے خلاف اکسایا گیا ہو ابھی تک تو اس کا اتنا وجود نہیں ہے لیکن اگر دشمن کی ترکیب چل جاتی ہے تو ہماری تباہی کی یقینی ہے۔


میرے نزدیک ہمیں تمام مکاتب فکر کے علماء کو اکٹھا کرنا چاہیے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اس واقعے پر عمل کرنے کا عہد لینا چاہیے جب منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی مرگیا اس کا بیٹا جو کہ سچا مسلمان تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میرا باپ مر گیا ہے۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیض اتاری کر دی اور کہا اس کو کفن دینا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھایا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھانے لگے  تو سامنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کس کا جنازہ پڑھا رہے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پتا کہ یہ منافق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی اللہ کی طرف سے حکم نہیں آیا ہے آپ نے جنازہ پڑھایا اور دعا کی اور پھر فرمایا میں نے اس کا ایک مرتبہ جنازہ پڑھایا ہے اگر اللہ  مجھے فرما دیں کہ اس کا جنازہ ستر مرتبہ پڑھوں تو میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا جنازہ ستر مرتبہ پڑھا دیتا۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچنے سے پہلے میت کو قبر میں اتار دیا گیا تھا آپ نے فرمایا اس کو باہر نکالو تو اپنا لعاب اس کے ہونٹوں پر لگایا اور کہا کہ شاید اللہ اس کے بخشش کر دے۔

اور اس کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے وحی  آئی کہ آئندہ کے بعد کسی غیر مسلم کا جنازہ نہیں پڑھا نا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محبت کو دیکھ کر کافی سارے منافق مسلمان ہوگئے یہ سلوک میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقوں  کے ساتھ تھا
تمام علما کو ایسے سلوک کا پابند کرنا چاہیے۔اور سب سے ایک عہد لینا چاہیے کہ جب بھی وہ آن کیمرہ مجمع سے خطاب کر رہے ہوں گے تو وہ اسلام کے بنیادی عقائد بیان کریں گے اور معاملات پر گفتگو کریں گے۔

اختلافی معاملات پر کوئی بھی بات نہیں کریں گے جب اپنے  مدارس کے اندر آف کیمرہ ہونگے تب بچوں کو مسلکی عقیدہ سکھائیں گے اور ان کے خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی اگر اس تجویز پر پابندی سے عمل شروع ہوجائے تو ہم ایک بہت بڑی مصیبت سے بچ سکتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ صوبائیت اور لسانیت ہے ہمیں صوبوں اور زبانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جیسے ایک بڑی ریاست کے اندر چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہر صوبہ اپنی زبان میں تعلیم دے رہا ہے۔

سندھ میں سندھی زبان میں پنجاب میں اردو میں اور خیبرپختونخوا میں پشتو میں تعلیم دی جا رہی ہے وزیراعظم عمران خان نے لسانیت کے حوالے سے اچھا قدم اٹھایا ہے تمام تعلیمی نظام یکساں  ہو رہا ہے لیکن ابھی بھی صوبائیت کو ختم کرنے کی مزید ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :