ایمبولینس کو رستہ دیں اس میں آپ کا کوئی پیاراہوسکتاہے

جمعرات 27 فروری 2020

Fayyaz Mehmood Khan

فیاض محمود خان

یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں کالج میں سکینڈ ائیر کا طالبعلم تھا اور اپنے کالج میں موجود طلبا تنظیموں کو کسی خاطر میں نہ لاتاتھا اور انکے خلاف ہی تقریریں جھاڑاکرتاتھا ،طلبا تنظیموں سے متنفر بہت سے طلبا میرے ہم خیال ہوئے اور میرے گروپ کا حصہ بنتے چلے گئے جس نے مجھے ایک دوام بخشا اور مجھے گروپ لیڈر کا درجہ دے دیا گیا،گروپ میں مجھ سمیت شاہد ،امین ،عمران، عظمت اور فاروق شامل تھے اب کالج میں کسی بھی قسم کی تقریب ہوتی،میچ ہوتا،بائیکاٹ کرنا یامقابلہ ہوتا پہل ہمارے گروپ کے کسی نہ کسی رکن کی جانب سے ہوتی تھی۔

یہ وہ دور تھاجب کالجز میں کو ایجوکیشن کی روایات کو ابھی رائج کرنے کا مرحلہ شروع ہی کیاگیاتھا ہماری کلاس میں بھی چند ایک طالبات موجود تھیں جنہیں ایمپریس کرنے کے چکروں میں ہم سے اوٹ پٹانگ حرکات بھی سرزد ہوجایا کرتی تھیں۔

(جاری ہے)

ایسی ہی ایک حرکت ہم نے یہ کی کہ کالج میں برسوں سے قائم پرانی روایات کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیااورسکول طرز پر اسمبلی کرانے کی روایت قائم کی جس میں پہل کرتے ہوئے قومی ترانہ بھی خود پڑھا ، اساتذہ بھی ہمارے ڈسپلن کو دیکھتے ہوئے خوش ہوئے اور اسمبلی کی روایت کو مزید پختہ کرنے کے لیے روزانہ ہی ا سکا باقاعدگی سے اہتمام کیاجانے لگا ،پہلے ایک قطار تو پھر قطار درقطار نے طلبا کو اسمبلی میں کھینچ لیا۔

پھر اسی اسمبلی میں مشہور ومعروف دعا بھی کہی جانے لگی جس کی ابتدابھی میں نے ہی کی اور ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری ‘‘کا آغاز کردیا، کالج کا نام اس لیے بتانا نہیں چاہتاکہ بہت سے دوستوں کو شائد برالگے کہ انکی پرسنل کالج لائف کو ڈسکس کیاگیا لہذا اس سٹوری میںتمام کردار وں کے نام اگرکہیں استعمال ہوئے تو فرضی تصور ہونگے۔ ہمارے گروپ کے ارکان زیادہ تر اپنی سائیکل یا موٹرسائیکل پر آتے تھے اور کبھی کبھار انجوائے کرنے کو دل کرتاتو پہلے سے پلان تیارکرکے بس میں سفر کو ترجیح دی جاتی اور اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کیاجاتا اس طرح ہم آئوٹنگ کے مزے اڑاتے تھے، کبھی کبھی چند کلومیٹر دور ہی بس سے اترجاتے اور شارٹ کٹ کے ذریعے کالج پہنچتے اور یہی روٹین واپسی کی بھی ہوتی تھی۔


ایسے ہی ایک دن جب کالج سے چھٹی ہوئی تو میں اپنے دوستوں کے ساتھ چارموٹرسائیکلوں پر واپسی کے لیے روانہ ہوا اور ایک دوسرے سے باتیں کرنے کے چکر میں بالکل برابر موٹرسائیکلیں لگالیں جس کی وجہ سے ہمارے پیچھے آنے والے موٹرسائیکل ،کاریں ،گاڑیاں اور حتیٰ کہ سائیکلیں بھی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ چل رہی تھیں ۔کالج دورمیں انسان کسی بھی بات پر غور نہیں کرتا اسے صرف اس بات پر فخر محسوس ہورہاہوتاہے کہ وہ کالج کا سٹوڈنٹ ہے جو ہرقسم کی پابندیوں سے ماورا ہے چاہے وہ والدین کا حکم ہو،اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ ہو،قانون شکنی ہو،راہ چلتے افراد سے شرارتیں، لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ، آوازیں کسنا ، لڑائی جھگڑے، طلبا تنظیموں میں بڑھ چڑھ کر تقاریر کرنا، کالج میں کسی بھی بات پر بگڑ کر ہنگامہ آرائی اور پھر بائیکاٹ کرتے ہوئے کالج کوچھٹی کرادینا، بسوں پر سوار ہوتے وقت ڈرائیور یا کنڈیکٹر ،کلینر کو دوچار جڑ دینا، یا کسی کوبھی اذیت بھری پریشانی میں مبتلا کرنا ان سب باتوں سے کالج سٹوڈنٹ کو کوئی غرض نہیں ہوتی اور ایسے ہی خیالات ،جذبات واحساسات سے بھرے ہوئے ہم کالج سے واپس گھروں کو روانہ ہوتے تھے ،اس روز بھی ہم تقریباً تمام دوست ہی ایکد وسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں اس قدر مصروف تھے کہ ہمیں اپنے پیچھے چیختی چنگھاڑتی گاڑیوں اور ایمبولینس سائرن کی آواز ہی سنائی نہ دی اور ہمارے پیچھے آنے والی گاڑیاں اس ایمبولینس کو ہزار ہا کوشش کے باوجود بھی راستہ نہ دے سکیں،ہمارے پیچھے گاڑیوں کا اژدھام تھا جو ہارن پر ہاتھ رکھے ہمیں چیخ چیخ کر راستہ دینے کی استدعا کررہاتھا اور ہم کبھی آگے کبھی پیچھے ہوکر چند ایک گاڑیوں ،موٹرسائیکلوں یا سائیکلوں کو راستہ دے کر ان پر احسان عظیم کرتے جارہے تھے ، اتنے میں ہم آپس میں چھیڑچھاڑ اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق میں توازن برقرار نہ رکھ سکے جس کی وجہ سے ہماری موٹرسائیکلیں آپس میںٹکراگئیں جس کی وجہ سے سڑک پر مزید ٹریفک بلاک ہوگیا اور ایمبولینس جس کا سائرن راستہ مانگنے کے لیے مسلسل چیخ رہاتھا ٹریفک میں پھنسی نظرآئی ۔

موٹرسائیکلیں ٹکرانے سے ہمیں چھوٹی موٹی معمولی چوٹیں بھی آئیں مگر ہم نے ان چوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی موٹرسائیکلیں سیدھی کیں اور پھر اپنے سفر کی جانب روانہ ہوگئے ۔تھوڑی دورجاکر سب اپنے اپنے گھروں کی جانب راستے بدل کر روانہ ہوئے تو سڑک پر ٹریفک کی روانی بحال ہوگئی اور ایمبولینس اسی زور وشور سے چیختی ہوئی ہمارے قریب سے گزرتی چلی گئی جس میں سواردوخواتین اور ایک مردکو زاروقطار روتے دیکھا مگر ہمیں اس وقت بھی اس بات کا قطعاً احساس پیدا نہ ہوسکا کہ ٹریفک بلاک کی باعث اس دوران ان پر کیابیتی ہوگی،قصہ مختصر ہم تمام دوست اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تو ایمبولینس کے ساتھ ساتھ دیگر گاڑی والوں نے بھی سکھ کا سانس لیا اور کچھ تو ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے ہمیںبرابھلاکہتے ہوئے جارہے تھے مگر ہم نے کسی کی بات کا براماننے کی بجائے ہنسی میں بات ٹال دی بلکہ انہیں مزید چھیڑنے لگے اور اس طرح ہم دنیا جہان کے مسائل سے بے خبر اپنی مستی میں مست گھروں کو لوٹ گئے۔


گھر سے کالج اور کالج سے گھر آنے جانے کا یہ سلسلہ جاری تھاکہ ایک روز ہمیں اچانک یہ اطلاع ملی کہ ہمارے جگری دوست اور گروپ کے سکینڈ لیڈر امین کو بجلی سے شدید کرنٹ لگا ہے اور وہ بری طرح جھلس کر شدید زخمی ہے جسے ہسپتال منتقل کیاجانے لگا ہے اور پھر کیاتھا ہم نے کالج جانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے امین کے گھر کی جانب دوڑیں لگادیں وہاں پہنچے تو امین بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا اور ایمبولینس کا انتظار کیاجارہاتھا ،اسی اثنا ایمبولینس وہاں پہنچی تو امین کو اسٹریچر کے ذریعے ایمبولینس میں سوار کیا اور خود بھی ایک دوست اور امین کے بڑے بھائی کے ساتھ ایمبولینس میں سوار ہوگئے ،اب ایمبولینس ڈسٹرکٹ ہسپتال کی جانب روانہ تھی ڈرائیور نے جلدی پہنچنے کی خاطر سائرن آن کررکھاتھا ،گلی کوچوں سے نکل کر جوں ہی ہم مین شاہراہ پرکچھ دور ہی پہنچے تھے کہ طلبا تنظیموں کی جانب سے کوئی ہڑتالی ریلی نکالی جارہی تھی، ریلی میں شریک طلبا کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور وہ مشتعل انداز میں کسی کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑک کے بیچوں بیچ چلتے جارہے تھے، انکے پیچھے گاڑیوں کی لمبی لائنیں تھیں اسی دوران ایک گاڑی والے نے ہمت کرکے مشتعل طلبا سے راستہ مانگاتو بس پھر کیاتھا گاڑی پر ڈنڈے اور سوٹوں کی برسات ہوگئی اورگاڑی والے کو بھی دوچار ہاتھ جڑ دیے گئے ،گاڑی کے شیشے توڑ دیے گئے ۔

جسے دیکھتے ہوئے کسی دوسرے نے ہمت ہی نہ کی بلکہ گاڑیاں کھڑی کرکے مظاہرین کو جانے کے لیے راستہ چھوڑ دیا۔ اب کیاتھا ہم ایمبولینس میں سوار مجبور بیٹھے تھے کہ طلبا کا مظاہرہ یا ریلی کہیں سائیڈ پر ہوتو انہیں ہسپتال جانے کا راستہ مل سکے ۔ اس دوران مجھے یہ خیال بھی آیا کہ میں خود نیچے اترکرجائوں اور طلبا سے درخواست کروں کہ ہمارا ایک بہت ہی پیارادوست زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے جسے ہسپتال وقت پر نہ پہنچایاگیاتو شائد وہ ہم سے جدا ہوجائے ،یہی سوچ کر میں نیچے اترا اور مشتعل طلبا کی جانب روانہ ہواہی تھاکہ ایمبولینس سے امین کے بھائی نے آواز دے کر واپس بلایا اور کہاکہ ابھی ایک تو ایمبولینس میں پڑا ہے تمہارے ساتھ بھی کچھ ہوگیاتو کیا جواب دیں گے لہذا یہیں بیٹھ کر انتظار کرو ابھی راستہ کھل جائیگا اور ہم ہسپتال پہنچ جائیں گے مگر آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا راستہ نہ کھل سکا اب ہماری ایمبولینس نہ آگے جاسکتی تھی نہ ہی پیچھے جانے کا راستہ بچاتھا ،مجبور اور محصور بے کسی کے عالم میں احتجاج کرنے والے طلبا کو برابھلا کہنا شروع کردیا ،غصہ اسقدر شدید اور برداشت سے باہر تھا کہ کچھ بن نہ پار ہاتھا مگر بے بسی کی تصویر بننے پر مجبور تھے اور پھر خداخداکرکے راستہ ملا تو ایمبولینس پھر چیختی چنگھاڑتی روانہ ہوئی اور ہسپتال پہنچے مگر بہت دیر ہوچکی تھی ڈاکٹروں نے امین کو دیکھا اور اچھی طرح چیک کیا ساتھ ہی کہہ دیا کہ آپ کو تاخیر ہوچکی ہے مریض اپنے خالق حقیقی سے جاملا ہے یہ سنناتھاکہ ہماری چیخیں نکل گئیں اور ہم ڈاکٹر کی بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوگئے، ہم نے اسے چیخ چیخ کر کہاکہ نہیںڈاکٹر صاحب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے اسے اچھی طرح چیک کریں یہ ٹھیک ہوجائیگا مگر ہماری کسی نے نہ سنی اور امین کو جس طرح ایمبولینس میں ہسپتال لائے تھے اسی طرح روتے پیٹتے واپس گھر لے گئے اور پھر اپنے پیارے دوست کی نعش سے لپٹ لپٹ کر روتے رہے ،امین کی وفات کی خبر کالج میں بھی پہنچی اور دوسرے دوست بھی رنجیدہ ہوگئے ، اسی روز امین کا جنازہ پڑھایاگیا جس میں کالج کے اساتذہ اور طلبا کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی ۔

قبرستان تک ہم بوجھل دل اور بھاری قدموںسے پہنچے اور پھر اسے اپنے ہاتھوںسے لحد میں اتارا تو ایک بارپھر آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی ،امین ہم سب میں سے ذہین اور لائق طالبعلم تھا ۔
امین کی وفات اور پھر اسے ہسپتال پہنچانے کے تمام واقعات کئی روز تک ہمارے خیالوں اور خوابوں میں بسے رہے ۔کالج آنے جانے کی روٹین معمول پر آئی تو پھر ہمارے روزمرہ کے کام کاج بھی ویسے ہی ہونے لگے مگر اب ہمارے گروپ میں ایک بہت بڑی تبدیلی نے جنم لیا اور وہ یہ کہ ہم جب بھی کالج سے واپس گھر یا گھر سے کالج آتے توکسی بھی مقام پر ٹریفک بلاک کرنے کا موجب بننے سے گریز کر تے اور جب بھی کسی ہڑتال،احتجاجی ریلی اور مظاہرہ میں ایمبولینس کو پھنسا دیکھتے توہمیں امین کی یاد شدت سے آنے لگتی اور پھر سوچتے کہ جب ہم ہنگامہ آرائی کرکے سڑک بلاک کرتے ہیں تو اس دوران بھی کوئی نہ کوئی ایمبولینس کہیں نہ کہیں پھنسی نظرآتی ہے اور پھر دل خون کے آنسو روتاہے کہ اس میں بھی کسی کا کوئی پیارا ہوگا جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوگا ، پھر مجھے وہ وقت بھی یاد آتاہے جب ہم دوستوں کی وجہ سے ایک ایمبولینس ٹریفک میں پھنسی ہوئی چیخ رہی تھی چنگھاڑ رہی تھی مگر ہم اپنی ان حرکتوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرتے تھے اور آج جب ہمیں خیال آتا ہے تو ہم شرمندہ ہوکر سرجھکانے کے سواکچھ نہیں کرسکتے۔

اب تو صورتحال یہ ہے کہ جب کسی سڑک پر ایمبولینس کی آواز آئے تو میں خود ہی ایک کنارے ہوکر رک جاتاہوں یا پھر موٹرسائیکل ،گاڑی آہستہ کرکے ایک طرف کردیتاہوں بلکہ دوسروں کوبھی یہی نصیحت کرتاہوں کہ ایمبولینس کو راستہ دیں  اس میں کوئی ہمارا پیارابھی ہوسکتاہے ہماری تھوڑی سی توجہ سے کسی کے پیارے کی قیمتی جان بچ سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :