پاکستانی اکاون فیصد آبادی ، خواتین

پیر 8 مارچ 2021

Ghulam Fatima Awan

غلام فاطمہ اعوان

8 مارچ (خواتین کا عالمی دن ) ، یہ دن عورت کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے ، معاشرے میں انھیں جائز مقام اور حقوق دلوانے کے لیے منایا جاتا ہے ۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اس دن مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے والی خواتین کی کوششوں کو سراہا جاتا ہے۔


معزز قارئین ! چند برسوں سے خواتین کا عالمی دن متنازعہ بنادیا گیا ہے ،جس کی وجہ عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ریلیوں اور مارچ میں کچھ متنازعہ پوسٹرز اور پلے کارڈز کے علاوہ وہ مخصوص سوچ ہے جو کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے ہمارے ذہنوں میں 'انجیکٹ' کی جارہی ہے۔ پاکستان چونکہ اسلامی نظریاتی ملک ہے جس کے باشندے اسلامی اور معاشرتی اقدار پر سختی سے کار بند ہیں ۔

(جاری ہے)

اسی لیے مغرب میں ناکام شدہ تجربات ہماری روایات، اقدار کے برخلاف ہونے کی بدولت قابلِ قبول نہیں۔
لیکن اس ساری صورتحال میں ہم یہ بھول رہے ہیں کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور آئین پاکستان میں خواتین کو 'بااختیار ' بنانے کی وضاحت اور عزم کا اظہار کیا گیا ہے اور دین اسلام میں خواتین کو جو حقوق ،اختیارات اور تحفظ فراہم کیا گیا ہے وہ دنیا کے کسی مذہب میں شامل نہیں۔


ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ وہ مخصوص ذہنیت اور سوچ ہے جو کہ ملک کی اکاون فیصد (51 ٪) آبادی کو آگے بڑھنے ، پڑھنے لکھنے اور ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا عملی کردار ادا کرنے سے روک رہی ہے۔ جو خواتین اپنی اعلیٰ تعلیم یا روزگار کے آگے بڑھنا چاہتی ہیں انھیں تنقید اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہماری بچیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جاتا ہے ، جہاں تعلیم دلوائی جاتی ہے وہاں شعور کی کمی کے باعث اور سماجی دباؤ کی بدولت والدین بیٹیوں کی شادیاں کردینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ،یہ کہانی ہر مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والی بیٹی کی ہے۔


خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سنجیدہ افراد اور میڈیا کو مل کر کردار ادا کرنا ہے اور اسے متنازعہ بننے سے روکتے ہوئے حکام بالا اور سول سوسائٹی کو باور کرانا ہے کہ وہ حقیقی مسائل پر توجہ دیں۔ ہمیں ان خواتین کی آواز بننا ہے جو پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں ،جنھیں اپنے حقوق کا علم ہی نہیں ۔۔۔ وہ عورت جس کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے ۔

۔۔ وہ عورت جس پر تشدد ہوتا ہے اور جس کی عزت نفس آج بھی مجروح ہے ۔۔ جسے ہراساں کیا جاتا ہے مگر مصلحتاً خاموش ہو جاتی ہے ۔۔ وہ عورت جسے تعلیم اور باعزت روزگار کا حق اسلام اور آئین پاکستان فراہم کرتا ہے لیکن وہ ان حقوق سے محروم ہے۔
معاشرے کے دیگر افراد کی طرح تحفظ اور جائز مقام کا حق اس کو بھی ہے ، صنفی امتیاز کو ختم کیا جائے۔ والدین کو اپنی بیٹیوں کی تربیت اس طرح سے کرنی ہوگی کہ وہ دوسروں سے پیچھے نہ رہیں ، دنیا کا مقابلہ کرسکیں ، حالات سے لڑسکیں ۔

انھیں تعلیم دلوائیں ۔ انھیں ہسپتالوں کے نظام ، عدالتی نظام ،پولیس اور وہ تمام شعبے جن کا عمل دخل ہر شہری کی زندگی میں براہِ راست ہے ، ان سے متعلق مکمل آگہی اور معلومات ہونی چاہیے تاکہ انھیں خدانخواستہ کسی حادثے یا سنگین نوعیت کے واقعات کی صورت میں ان حالات کا مقابلہ کرنے کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے کیونکہ خود اعتمادی ہی مضبوط عورت کا پہلا ہتھیار ہے۔
جہاں والدین کا کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں ،وہیں بچیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ ایک انصاف پسند معاشرے کی تشکیل میں اپنا لازوال کردار ادا کریں۔ حقوق اور ذمہ داریوں سے تشکیل پانے والے معاشرے سے ہی قومیں اور ملک ترقی کرتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :