ذرا سوچیے !!!!

منگل 13 اپریل 2021

Ghulam Fatima Awan

غلام فاطمہ اعوان

قوموں کی تہذیبی نشوونما ، پہچان اور شناخت کے استحکام میں زبان کو اساسی اہمیت حاصل ہے ، نیز وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی قومی / مادری زبانوں اور تہذیب و ثقافت پر فخر کرتی ہیں ۔
پاکستان کے آئین میں اُردو کو قومی زبان قرار دیا گیا اور اسی آئین میں 15 سال کے عرصے میں اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا عزم بھی کیا گیا ، مگر اردو کا مکمل نفاذ ممکن نہ ہوسکا بعد ازاں ستمبر 2015 میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے معزز چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے احکامات جاری کیے تھے کہ آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت اردو زبان کو بلاتاخیر فوری طور پر نافذ کیا جائے ۔

اس عدالتی حکم پر بھی عملدرآمد ممکن نہ ہوسکا ۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی و مادری زبانوں پر ناز کرتے ہیں لیکن ہم احساس کمتری کا شکار وہ لوگ ہیں جو کہ غیروں کی زبان میں بات کرکے یا سن کر خوشی محسوس کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اکثریت ان لوگوں کی بھی ہے جو کہ انگریزوں سے بھی اچھی انگریزی زبان لکھ اور بول سکتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ دوسروں کی زبان کی ترویج و ترقی میں ہمارا عمل دخل تو ہے مگر قومی و مادری زبانوں کی ترقی و نفاذ میں ہمارا عملی کردار کیوں نہیں ہے ؟؟؟
انگریزی زبان گوکہ عالمی سطح پر رابطے کا بہترین ذریعہ ہے مگر ہمارے حواس پر اس قدر سوار ہے کہ دیگر ممالک سے پاکستان آنے والے دفود اپنی قومی زبان میں جبکہ ہم اپنے ہی ملک میں انگریزی زبان میں خطاب کرتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد چند ایک عالمی فورمز پر اردو زبان میں خطاب کیا ، امید واثق ہے کہ وہ آئندہ بھی قومی زبان کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہیں گے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قومی زبان کے نفاذ اور درس و تدریس کے عمل میں ایک بہت خلا یہ ہے کہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں طلباء کو مطلوبہ تدریسی مواد اردو زبان میں دستیاب نہیں ملتا ۔

نصابی کتب جو کہ سائنسی و معاشرتی علوم پر اردو میں لکھی گئی ہیں ان پر نظر ثانی یا جدید دور کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتیں ۔ مقابلے کے امتحانات کے لیے بھی حالات حاضرہ و دیگر مضامین کی تیاری کے لیے اول تو ڈھونڈنے سے کوئی کتاب نہیں ملتی اور اگر شدید تگ و دو کے بعد کہیں اکلوتی کتاب مل بھی جائے تو مندرجات اور مواد دیکھ کر طلباء انگریزی کتب کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔

مختصراً یہ کہ جب قومی زبان کے لیے آپ کی خدمات محض چند اردو رسالوں تک ہی محدود رہیں گی اور معیاری ، جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب اور تدریسی کتب ہی میسر نہیں ہوں گی تو دوسروں سے کیا شکوے ...!!!
جہاں لوگوں کی ذہانت کو جانچنے کا پیمانہ محض انگریزی زبان ہو اور لوگ ذہنی طور پر انگریزوں کے غلام ہوں ، اُردو پڑھنا / بولنا اچنبھے کی بات ہو ۔ نیز اپنی ہی قومی و مادری زبانوں کے زوال کا سبب ہم خود ہوں تو "ترقی یافتہ" ملک کہلانے کا خواب کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچے گا ؟
ذرا سوچیے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :