یوم سیاہ، آزادی مارچ اور ابہام

اتوار 27 اکتوبر 2019

Ghulam Fatima Awan

غلام فاطمہ اعوان

27اکتوبر کو دُنیا بھر میں کشمیری مسلمان، مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ سات دہائیوں سے جاری بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف "یومِ سیاہ" منارہے ہیں اور پاکستان کشمیری مسلمانوں کے کندھے سے کندھا ملائے ہر طرح کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت اور مدد کرتا آرہا ہے-کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور خارجہ پالیسی کا اہم ترین جزو ہے، کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا موقف مضبوط اور مدلل ہے-کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دلانے کے لیے حکومت پاکستان اور پاکستانی میڈیا اپنا مثبت اور اہم کردار ادا کر رہے ہیں- پاکستان کی اندرونی سیاست کی اگر بات کی جائے تو 27 اکتوبر 2019 کو ہی جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور اتحادیوں نے ملک گیر احتجاج اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جسے "آزادی مارچ" کا نام دیا گیا - 5 اکتوبر 2019 کو پاکستان کے ایک بڑے اخبار میں شائع ہونے والے کالم میں ایک نامی گرامی کالم نویس نے مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی ذاتی ٹیلی فونک گفتگو مختصراً بیان کی ہے، اس کالم میں موصوف لکھتے ہیں : "مولانا نے بتایا کہ انھوں نے گزشتہ ایک برس میں سارے پاکستان کے دورے کیے، کارکنوں کو سرگرم کیا-حکومت کی کارکردگی پر لاکھوں سے خطاب اور ہزاروں سے ملاقات کی -" کسی سیاسی جماعت کے کارکن یا رہنماؤں کا لوگوں سے ملاقاتیں کرنا یا جلسے جلوس کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ سیاسی میدان میں متحرک رہنا اچھے سیاستدان کی خاصیت ہے - 4 اکتوبر کو مولانا نے مذکورہ بالا کالم نویس کو بتایا کہ وہ گزشتہ ایک سال سے لوگوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں (یعنی اکتوبر 2018 سے) برسرِ اقتدار حکومت نے اگست 2018 میں حلف اٹھایا، سوال یہ ہے کہ حلف اٹھانے کے تین ماہ بعد ہی مولانا نے حکومت کی خراب کارکردگی کے خلاف اسلام آباد کی طرف مارچ کا ارادہ کردیا تھا؟ بہرحال--- 27 اکتوبر ہی کیوں؟ مولانا فضل الرحمان کا موقف ہے کہ "کشمیریوں کی آزادی سلب کی گئی اور یہ دن "سیاہ دن" ہے-" جبکہ مولانا فضل الرحمان سابق چیئرمین کشمیر کمیٹی رہ چکے ہیں اور ان کی کارکردگی سے سبھی واقف ہیں - احتجاج جمہوری حق ہے اور اس حق کو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے استعمال کیا جانا چاہیے ناں کہ انتشار اور تشدد کی فضا قائم کرنے کے لیے - آزادی مارچ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا ایجنڈا غیر واضح اور مبہم ہے اور ساتھ ہی حکومت کے استعفوں کا مطالبہ غیر سنجیدہ اور بادی النظر میں ناجائز ہے کیوں کہ مولانا نے عمران خان کے دھرنے کے دنوں میں بارہا ادا کیے گئے الفاظ کو دہراتے ہوئے موجودہ حکومت اور اسمبلی کو "جعلی" قرار دیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان خود اس اسمبلی کا حصہ نہیں ہیں اور 2018 کے عام انتخابات میں بُری طرح شکست سے دوچار ہوئے-موجودہ وزیراعظم عمران خان نے اُس وقت اسمبلی کو جعلی کہا اور ردعمل میں تنقید کا نشانہ بننے کے بعد پی ٹی آئی اراکین نے استعفے دے دیئے، وہ الگ بات ہے کہ اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے منظور نہیں کیے-اصولاً جمیعت علمائے اسلام ف کو بھی پہلے مستعفی ہونا چاہئے - جمعتہ المبارک سے ایک دن قبل تک سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں اضطراب پایا جاتا تھا اور بہت سے سوالات اور مباحثے جاری تھے، بظاہر صورتحال یہ تھی کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک مرتبہ پھر کاروبار زندگی مفلوج ہونے جارہا ہے اور خدانخواستہ دھرنا پرتشدد بھی ہوسکتا ہے لیکن "آزاری مارچ" سے دودن پہلے مسلم لیگ( ن) کے سربراہ نواز شریف کی ایک کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی منظوری اور عدالتی تحریری فیصلے میں بڑا ریلیف مل جانے سے بازی پلٹتی دکھائی دیتی ہے - پی پی پی اور ن لیگ مولانا فضل الرحمان کو احتجاج نومبر، دسمبر میں کرنے پر قائل کررہی تھیں مگر مولانا نے ایسا نہ کیا جس میں یقیناً سیاسی مصلحت اور نومبر، دسمبر کا شدید سرد موسم آڑے آ رہا ہوگا- وزارت داخلہ نے "انصار الاسلام" پر پابندی لگادی ہے، برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں بھارت کی جانب سے انصار الاسلام کی سرگرمیوں کی ویڈیوز پیش کی گئیں جس پر کئی ممالک نے تشویش کا اظہار کیا - حالات جو بھی ہوں، یہ تو طے ہے کہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد کی جانب مارچ ضرور کریں گے کیونکہ واپسی ناممکن ہے لیکن اگر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور کارکنان شریک نہ ہوئے اور اُس طرح سے مولانا کا ساتھ نہ دیا جس کی توقع جے یو آئی ف ان سے کررہی ہے تو مولانا فضل الرحمان کے اپنے مطالبات پورے کروانا ممکن نہیں ہے - حکومتی حکمت عملی اور اقدامات سے محسوس ہوتا ہے کہ آزادی مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد میں احتجاج کی غرض سے آنے کے لیے نہیں روکا جائے گا ہاں مگر آئینی خلاف ورزی کی صورت میں حکومتی رٹ کو بحال رکھنے کے لیے تمام اقدامات کئے جائیں گے - جے یو آئی ف زیادہ دن اسلام آباد میں ٹھہرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اگر مولانا فضل الرحمان، حکومت سے استعفے لینے میں ناکام رہے تو پاکستانی سیاست میں ان کا اثرورسوخ اور عمل دخل کم ہو جائے گا -

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :