قلم ،اہل قلم اور خوشامد پسند

منگل 9 اپریل 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

صحافت دورِحاضر کا انتہائی کماؤپیشہ ہے جو بے روزگار تھا وہ آج کا بڑا صحافی اور سرمایہ دار ہے قلم اور ضمیر کو فروخت کرتا ہے ذات وکردار کو نہیں سوچتا ۔دوسروں کی عزت اور توہین سوچتا ہے وہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ قلم لفظ لکھتا ہے وہ لفظ جو قلمکار سوچتا ہے لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ لفظوں میں شخصیت بولتی ہے کردار بولتا ہے خون بولتا ہے ۔ دورِحاضر میں ایسی باتوں کو سوچنا فضول ہے اس کی بڑی وجہ کچھ ایسی سرمایہ دار شخصیات بھی ہیں جو نام کمانے کیلئے ایسے خوشامدیوں کو ساتھ رکھتے ہیں خوشامدی کا کیا جاتا ہے اگر کسی شخصیت کی تعریفی لفظوں میں آسمان سے تارے توڑ کر اُس کے دامن میں بھرتا ہے ، اگر شہباز کو اُلواور اُلو کو شہباز لکھتا ہے تو اُس کا کیا جاتا ہے کچھ بھی نہیں جاتا اس لیے کہ نہ تو اُس کا ضمیر جاگ رہا ہوتا ہے اور نہ ہی اُسے اپنی خودی کا احساس ہوتا ہے اُسے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بڑے کمال سے پیسہ کماتا ہے دن بھر ہم اپنے شہر کے گداگروں کو دیکھتے ہیں صرف ہاتھ ہی آگے کرتے ہیں وہ اپنے ہاتھ کی قیمت نہیں جانتے ہیں اُن کی سوچ صرف اور صرف پیسہ ہے اور اگر بغیر خون پسینہ بہا ئے کے دال روٹی کی بجائے مرغن کڑاہی ملے تو اس سے اس کی بڑی خوشی اور کیا ہوسکتی ہے ۔

(جاری ہے)


ایسی ہی حالت دورِحاضر کی صحافت کی ہے ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خاندانی حوالے سے صاحب ِکردار اور سرمایہ دار ہیں اچھے بھلے گھرانوں کے چشم چراغ ہیں لیکن اپنی ”میں“ کو بھول گئے ۔خاندانی وقار اور شخصی احترام کو مانگ کر کھانے کی نذر ہوچکے ہیں اور جن سے مانگتے ہیں وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتے ۔

وہ جانتے ہیں یہ ہمارے درباری فقیر ہیں ۔وہ خیرات سمجھ کر دیتے ہیں اپنی آخرت سنوارتے ہیں اورکچھ ایسے بھی بہت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دیا بہت کچھ ہے اور وہ اللہ کے دئیے کو اپنی شہرت کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔درباری قلمکار تعریف وتوصیف کے علمبردار اُن کیساتھ ہوتے ہیں کسی غریب مجبور خاتون کو خیرات دیتے ہیں تو اُس کیساتھ تصویر بنالیتے ہیں او رتصویر کی تشہیر کرکے اپنا نام کماتے ہیں او رغریب خاتون کی غربت کا مذاق اُڑاتے ہیں ۔

اخبارنویس اور قلمکاروں کے روپ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو معصوم اور مجبور خاندانوں کی بیٹیوں کی شادی کیلئے جہیز کے نام پر مانگتے ہیں جن سے مانگتے ہیں ان کو شہر کا ایدھی لکھ دیتے ہیں کچھ سرمایہ دار ایسے بھی ہوتے ہیں جو تقریبات کے انعقاد کیلئے خطیر رقم دے کر خدمت ِخلق کے نام پر گولڈمیڈل لیتے ہیں ایوارڈ لیتے ہیں اور جن کے سامنے ایوارڈ یا گولڈ میڈل لیتے ہیں وہ اُن کی کم ظرفی اور خودپرستی پر دل ہی دل میں ہنستے ہیں یا کبھی کبھی زور زور سے تالیاں بجا کر اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ گولڈ میڈل اور ایوارڈ اُن کے حسن کردار کا اعزاز نہیں بلکہ امداد کے عوض خریدا ہوا سلور یا لکڑی کی تختی ہے ایسے ایوارڈ اور گولڈمیڈل کی کوئی قیمت نہیں ہوتی حالانکہ یہ ہی ایوارڈ یا میڈل اگر حقیقی معنوں یعنی حسن کارکردگی پر ملے تو روحانی تسکین ملتی ہے۔

میرے ایک عزیز دوست ہیں وکیل ہیں اخبار نویس بھی ہیں ان سے ملنے اُن کے دفتر گیا تو شہر کا ایک صحافی شاپنگ بیگ میں ایوارڈ لایا اور میرے وکیل دوست سے کہا مجھے یہ ایوارڈ دے دیں تصویر بنوائی اور دوسرے دن اُس کے ذاتی اخبار میں ایوارڈ لینے والی تصویر کے نیچے جو لکھا تھا باعث ِشرم تھا لیکن اگر اُس کو شرم کا احساس ہوتا تو ایسا کرتا کیوں ؟کام تو بے شرمی کا ہے او رجن کو شرم نہیں آتی اُن کا شرم اور بے شرمی سے کیا واسطہ۔

ہمارے شہر میں ایسے باکردار سرمایہ دار اور اہل قلم ہیں شہری اُن پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں اس لیے کہ وہ مجبور اور معصوم ضرورت مند کی ایک ہاتھ سے مدد کرتے ہیں تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہیں چلنے دیتے اس لیے کہ وہ اگر کسی کی مدد کرتے ہیں تو اللہ کی رضا اور اپنی آخرت سنوارنے کیلئے وہ اللہ کی دی ہوئی خوشحالی کو دنیا کی زینت سمجھتے ضرور ہیں لیکن خودنمائشی نہیں کرتے اس لئے معاشرے میں قابل صد احترام ہیں وہ اپنی شہرت ،تعریف اور توصیف کیلئے نہ تو کسی درباری اخبار نویس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی ایسے بے روزگار فقیروں کو اپنے قریب آنے دیتے ہیں اور یہ ہی اُن کی زندگی کا حسن ہے جس پر وہ اور اُن کے خاندان کے لوگوں کیساتھ عام لوگ بھی فخر کرتے ہیں اور ایسے لوگ واقعی! عزت وتکریم کے لائق ہیں اُن پر فخر کیا جانا انسانیت کی شان ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :