اسلامی صدارتی نظام اور پاکستان

جمعرات 27 جنوری 2022

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

  تحریک ِ انصاف کے دور ِ اقتدار کے آغاز ہی سے وطن عزیز میں صدارتی نظام کی صدائیں آنے لگیں تھیں اور اب ان صداﺅں کی گونج سے کان بجنے لگے ہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ صدارتی نظام ہے کیا؟ اور یہ کتنا طاقتور ہے ؟
پاکستان میں صدارتی نظام جنرل محمد ایوب خان سے پرویز مشرف کے دور اقتدار تک چلتا رہا۔ صدارتی نظام کی حکمرانی کے لئے عوام براہ ِ راست ووٹ دے کر صدر کا انتخاب کرتے ہیں اور منتخب صدر اپنے اقتدار کے حسن کے لئے کابینہ تشکیل دیتا ہے جب کہ پارلیمانی نظام جمہوریت میں لوگ اپنے حلقوں کے نمائندہ افراد کو ووٹ دے کر پارلیمنٹ تک پہنچاتے ہیں جہاں وہ اکثریت کی بنیاد پر وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں ،
صدارتی نظام میں حکومت کے لئے مدت مخصوص ہوتی ہے مدت پوری ہونے تک کوئی اسے ختم نہیں کر سکتا لیکن پارلیمانی نظام جمہوریت میں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو مقررہ مدت سے پہلے ختم کیا جا سکتا ہے جب کہ ہمارے دیس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا ، اپوزیشن اگر حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے نہیں گرا سکتی تو قومی اور صوبائی ایوانوں کو مچھلی منڈی بنا دیتی ہے۔

(جاری ہے)

اجلاسوں میں قومی اور اخلاقی قدروں اور پارلیمنٹ کے تقدس کا جنازہ نکال دیتی ہے اجلاسوں میں آنے سے پہلے خوا تین ممبران پا رلیمنٹ بیو ٹی پارلر جاتی ہیں بڈ ھی گھوڑیاں لال لگام انہی پر صادق آتا ہے قانو ن سازی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ،تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں اگر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی بے شرمی کا جادو نہ چلے تو سڑکوں پر آجا تی ہے۔

چار لاکھ کا میک اپ کر کے کم بخت کہتی ہیں ” غریب بھوکا مر گیا “ عوام کو سڑکوں پر خوار کر تے ہو ئے دھرنے د دیتی ہے قومی اور نجی املاک کو آگ لگا دیتی ہیں
 پاکستانی قوم کھبی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گی کہ اگر پاکستان میں کوئی ترقی ہوئی ہے تو وہ مارشل لاءکے ادوار اقتدارمیں ہوئی ہے اور اگر تباہی ہوئی ہے تو وہ صرف نام نہاد جمہوریت کے دور اقتدار میں ہی ہوئی ہے ۔

اب قوم کی نظریں اسلامی صدارتی نظام کی راہ دیکھ رہی ہیں ، اس لئے کہ اسلامی صدارتی نظام ایک متحرک نظام حکمرانی ہے۔ اس کی اگر کوئی قریب ترین مثال دی جاسکتی ہے تو وہ خلافت راشدہ کا نظام ہے۔ چاروں خلفائے راشدین در اصل ”اسلامی صدور“ تھے۔ ان کے پاس انتہائی قابل ترین ، مخلص ترین ، مذہبی سکالر ، اور قابل جہاندیدہ لوگ تھے قابل ترین مشیر تھے وہ مشور ہ دیتے تھے لیکن حتمی فیصلہ ”صدر“ کا ہوا کرتا تھا۔


  ہم اگر پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام کی بات کرتے ہیں تو ہمیں پاکستان بھر سے ،پاکستان کے وفادار،ایمان کی روشنی سے منور ان شخصیات کو آگے لانا ہوگا جنہیں قومی اور بین الاقوامی زبان پر عبو ر حاصل ہو،قومی مذہبی ،بین الاقوامی تاریخ کے علمبردار ہوں جو خود ہوس ِ اقتدار کے مریض نہ ہوں ۔صدارتی نظام میں امیدواروں کے انتخاب کیلئے ایک طاقتور ترین غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جاتا ہے جس میں ریاستی اداروں، سپریم کورٹ، مسلح افواج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور معاشرے کے مستند دانشوروں کی ایک جماعت پوری تحقیق و تفتیش کے بعد شخصیات کی ماضی کے کردار، زندگی کی کارکردگی اور قابلیت سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کر تے ہیں۔

صدارتی امیدوار کیلئے کوئی شخص خود اپنے آپ کو پیش نہیں کر تا۔ اسلامی صدارتی نظام میں منتخب صدر قرارداد مقاصد کے مطابق قرآن و سنت کے احکامات کے تابع فیصلہ کرنے کا پابند ہو تا ہے!
کھاریاں کے ایک پاکستان دوست تجزیہ نگار ، ثاقب شبیر نے ایک چنک چی رکشے کے پیچھے لکھے ہوئے اس جملے ”       ” ایک غلط نظام میں درست حاکم کا ہونا بے معنی سی بات ہے “
 پر تبصرہ لکھتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان کی صوبائی قومی اسمبلیوں اور سینٹ میں بیٹھے ، عوامی نمائندوں، میڈیا ا ینکروں، دانشوروں ، ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں بیٹھے آئین کے نگہبان ججوں کی اجتماعی دانش اور عرق ریزی پہ اس رکشے والے کا یہ ایک جملہ حاو ی ہے اس لئے کہ دانش اور فہم ،محلات اور پوشاکوں کی میراث نہیں، آگے لکھتے ہیں، منافق ساتھیوں، بلیک میلر اتحادیوں، بد نیت اپوزیشن،تین تین نسلوں سے خاندان کے کھونٹے سے بندھی ” جمہوریت “اور ٹوکرا صحافت کے ساتھ ساتھ قدم قدم پر لوہار ہائی کورٹ کی کھڑی رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے کپتان کیا قائد اعظم بھی عالم ارواح سے واپس آجائیں تو کچھ بھی نہ کر پائیں گے لہٰذ ا جمہوریت کے ناکارہ بت کی پو جا اب بند کی جائے جمہور کا ایک ہی مطالبہ ” اسلامی جمہوری نظام “۔


جب قوم کی آنکھیں کھلتی ہیں تو صاحب دانش بولتے ہیں ، اسلامی صدارتی نظام میں نہ تو یہ حرام خور سیاسی جماعتیں نہیں ہوں گی نہ ہی صوبائیت، قومیت، لسانیت اورفرقہ واریت کی بنیاد پر ووٹ کوئی ووٹ مانگے گا اور نہ ہی ایسی پارلیمنٹ ہوگی جہاں کروڑوں اور اربوں لگا کر سیاسی لٹیر ے منتخب ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام میں قومی اداروں مزدور کسانوں سے لیکر مسلح افواج تک، ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والا ہر طبقہ پارلیمان میں موجود ہوگا اور ملکی ترقی و قانون سازی کے حوالے سے ہر کوئی اپنا کردار ادا کرے گا اگر پاکستان کی عوام چاہتی ہے کہ پاکستان ریاست ِ مدینہ کی مثال بن جائے تو ، موروثی پیشہ ور سیاست دانوں۔

نام نہاد اشرافیہ، زرداروں، درباری متولیوں ، مغربی دلالوں ، ضمیر فروش اہل قلم، زرخرید سکرین میڈیا کے اینکر پرسنوں، سے نجات حاصل ہو تو نظام بدلنا ہو گا پاکستان کا خوبصورت مستقبل اسلامی جمہوری نظام “ ہے
اسلامی صدارتی نظام میں ایک طاقتور صدر ملک کا سیاسی رہنما بھی ہوگا اور سپہ سالار اعلیٰ بھی۔ مسلح افواج کی قیادت، مشیروں اور وزیروں کا انتخاب، عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی اور قومی اور ریاستی اداروں کے سربراہان کا تعین صدر کا اختیار ہوگا وہ اپنے مشیروں اور کابینہ کی رائے سے فیصلے کرے گا ۔

اسلامی صدارتی نظام آزاد قوموں کی نظام حکمرانی ہے، پاکستان بنا ہی اس اصول کی بنیاد پر تھا کہ پاکستان کی عوام اور حکمران اسلام کے دائمی اور ابدی روحانی سیاسی و عسکری و معاشی نظاموں کو نافذ کرکے دنیا کیلئے ایک مثال بن جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :