اگر جج جواب دہ نہیں تو سینیٹر اور وزیراعظم کیوں کرجواب دہ ہو سکتا ہے

جمعہ 4 فروری 2022

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

دنیا بھر کے نظام عدل میں  136 نمبر پر آنیوالی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدلیہ نے اقرباءپروری کا دفاع کرتے ہوئے جسٹس قاضی عیسٰی کی اہلیہ محترمہ سرینا عیسیٰ نظر ثانی کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا !
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کا 45 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے سے قبل عدالت نے کیس کا مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا اور اب نو ماہ بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا ہے، جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے (سابق) چیئرمین بیرسٹر شہزاد اکبر اور وزیرِ قانون فروغ نسیم کی غیر قانونی ہدایات پر ٹیکس حکام نے سرینا عیسیٰ کے مقدمے میں ٹیکس سے متعلق رازداری کے حق کو بھی واشگاف طور پر پامال کیا ہے۔

(جاری ہے)

شہزاد اکبر اور فروغ نسیم سرینا عیسیٰ کے خلاف مقدمے میں ٹیکس سے متعلق رازداری کے قانون کو توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔وزیر قانون اور چیئرمین اے آر یو کی آئین اور قانون کی خلاف ورزی کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس آفریدی نے لکھا کہ اس عدالت کی جانب سے ان افراد کے اقدامات کو متفقہ طور پر غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیئے جانے کے باوجود ان کو عہدے پر برقرار رکھنا وزیر اعظم کے ان خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کو واضح کرتا ہے۔

ٹیکس حکام کو جج کی اہلیہ اور ان کے بچوں کے خلاف تحقیقات کے لیے دی جانے والی ہدایات سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ تاہم ٹیکس حکام کو اس آرڈیننس کے تحت کسی بھی جج کے خلاف آزادانہ طور پر تحقیقات کا حق حاصل ہے نہ کہ حکام بالا کی ہدایات کی روشنی میں۔ ہدایات پر کی جانے والی تحقیقات قابل تعزیر جرم کے ذمرے میں آتی ہے۔ اور اس مقدمے میں خلاف قانون ہدایات دینے جیسے سنگین نتائج کا خمیازہ بیرسٹر شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور ان ٹیکس حکام کو بھگتنا ہو گا جو ایسی غیرقانونی ہدایات پر عمل پیرا ہوئے ہیں۔


جسٹس یحییٰ آفریدی کے مطابق درخواست گزار جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) یا کسی بھی جج کو یہ اختیارحاصل نہیں ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت میں درخواست گزار بن جائے۔ سرینا عیسیٰ، ان کی بیٹی اور بیٹے کے خلاف اس عدالت کے فیصلے کو واپس لیا جاتا ہے۔ اور اس کی بنیاد پر دی جانے والی ہدایات، ہونے والی کارروائی اور اس بنیاد پر تیار کی جانے والی رپورٹس کا سرینا عیسیٰ اور ان کے بچوں کے حقوق اور ذمہ داریوں پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔

یہ کالم لکھتے ہوئے واٹس ایپ پر ایک دلچسب تحریر وصول ہوئے نامعلوم لکھنے والا لکھتا ہے!
میرے گھر میں چور دیوار پھلانگ کر آیا میں نے کمرے سے جھانک کر دیکھا تو چو ر صحن میں آچکا تھا۔ میں نے اسے پکڑنے کا پلان بنایا ۔ چور سونا اور نقدی لوٹ کر ایک بیگ میں بھر چکا تھا، میں اسے دروازے کی اوٹ سے دیکھ رہا تھا۔ وہ جیسے ہی میرے کمرے میں آیا تو میںنے اس پر کمبل ڈال کر اسے قابو کر لیا۔

اور اسے لاتوں اور مکوں سے بےہوش کر دیا۔ جب چور کو ہوش آیا تو چور بجائے شرمندہ ہونے کے، ایکدم بھڑک کر بولا کہ تم کو کیسے پتہ چلا کہ میں اس کمرے کی طرف آ رہا ہوں اور تم تیار کھڑے تھے؟ میں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ میں دراصل تمہیں چھپ کر واچ کر رہا تھا۔ یہ سن کر چور ایکدم چونک گیا۔۔ "کیا تم نے میری جاسوسی کی ہے۔۔ تم کو پتہ ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی شخص یا ادارہ کسی کی جاسوسی نہیں کر سکتا ، یہ تو صریحاً قانون کی خلاف ورزی ہے ." کیا بکواس کر رہے ہو؟ میں چلایا، تم میرے گھر چوری کرنے آئے تو کیا میں تمہیں پکڑوں گا نہیں؟ یہ سن کر چور نہایت اطمنیان سے مسکراتے ہوئے بولا کہ بہتر ہو گا کہ تم اپنے وکیل سے فون کر کے پوچھ لو کہ چور کی چوری کو اگر پکڑنا ہو تو آئینی طریقے کو کیسے ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا، غیر آئینی طریقے سے چور کی چوری پکڑنا بھی ایک جرم ہے۔

یہ سن کر میں بھونچکا گیا. اس نے رعب ڈالتے ہوئے کہا میرا نقدی اور سونے سے بھرا بیگ کہاں"۔ میں نے کہا کیا وہ بیگ تمہارا ہے؟
 ابے کم بخت وہ نقدی اور سونا میرا ہے جو تم نے اس گھر سے چرایا ہے۔ چور نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔۔ جب تم نے مجھے پکڑا ہی غیرآئینی اور غیرقانونی طریقے سے ہے تو پھر تم یہ ثابتکیسے کر سکتے ہو کہ میں نے چوری کی ہے، اس لیے جب تک میری چوری ثابت نہیں ہو جاتی، تب تک یہ سارا مال میرا ہی ہے۔


جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں بھی بالکل ایسا ہی ہوا ہے کہ ایک چور نے چوری کی، سارا لوٹا ہوا مال بیوی اور بچوں کے نام رکھا، جب اس کے اثاثے ایف بی آر نے پکڑ لیے تو عدالت میں یہ کہا گیا کہ ایف بی آر نے جن ذرائع سے ہماری معلومات حاصل کی ہیں، وہ ذرائع غیر آئینی ہیں، اور اس ٹیکنیکل بنیاد پر چور ججوں نے اپنے چور جج کی حمایت کی اور اسے اوراسکی بیوی کو بری کر دیا. اب چور بھی وہیں ہے، چوری کا مال بھی برآمد ہو گیا ہے، چور نے مان بھی لیا کہ یہ سب چوری کا مال ہے، اسکے اثاثوں کی کوئی منی ٹریل نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ اسے سزا نہیں دے سکتے کیونکہ آپ نے چور کو "غیر آئینی" طریقے سے پکڑا ہے۔

آئیے نظامِ انصاف کے اس لاشے پر نوحہ پڑھ کر اسے دفنا دیں۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔۔۔ !!
 عدالت کے اس لطیفے پر وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے تو اس لئے کہا کہ فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ فل بینچ کا فیصلہ غلط اور تضادات کا حامل ہے اس لئے کہ اگر سپریم کورٹ کا جج اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کا جواب دہ نہیں تو کیا یہ معیار دیگر سرکاری ملازمین کے لیے بھی ہوگا؟ مسز سرینا عیسیٰ نے ایک مرتبہ بھی اپنے اثاثوں کی منی ٹریل نہیں دی۔وزیر قانون نے کہا کہ اگر جج جواب دہ نہیں تو میں بطور سینیٹر اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں کرجواب دہ ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :