
حکومت اور طالبان مذاکرات ناکامی کا شکار کیوں؟
ہفتہ 14 جون 2014

حافظ محمد فیصل خالد
(جاری ہے)
دوسری جانب یہ بات بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ طالبان خود دو گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ طالبان کا ایک گروہ حکومت سے مزاکرات کا حامی ہے اور اس قتل غارت سے تنگ آتے ہوئے امن و امان کے قیام کیلئے حکو مت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتا ہے جبکہ دوسری جانب طالبان کا دوسرا گروہ حکومت کی جانب سے مذاکراتی عمل کی مخالفت کر رہا ہے۔
یہ تو چند ظاھری اسباب کا طائرانہ جائزہ ہے جو حکومت پاکستان اور طالبان قیادت کے درمیان مذاکراتی عمل کو متاثر کر رہے ہیں۔مگر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ طالبان اور حکومت میں مذاکرات ایک غیر فطری عمل ہے۔کیونکہ طالبان روز اول سے دنیا میں قیام خلافت کے لئے کو شاں ہیں اور اپنے زیر حکومت علاقوں میں نظام خلافت کو قائم کئے ہوئے ہیں اور خلافت کے اس طرز حکومت کو ساری دنیا میں نا فذ کرنے کیلئے کوشان ہیں۔علا وہ ازیں وہ ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔جو کہ اس وقت شاید ممکن نہیں ہے۔اسکے علاوہ طالبان قیادت اپنے چند ساتھیوں کی رھا ئی کا مطالبہ حکومت سے کر چکی ہے اور شاید ان قیدیوں کی رھائی حکومتی مفاد مین نہیں۔جبکہ دوسری جانب حکومت پاکستان جمہوریت کے فروغ و استحکام کے لئے پر عزم ہے اور جمہوریت کی بقا کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریزاں نہیں اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے ہر حد تک جانے کو تیارہے۔کیونکہ موجودہ حکومت اور دیگر سیاسی جما عتیں ہمیشہ جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑتی آرھی ہیں اور ان جماعتوں کے قائدین نے استحکام جمہوریت کیلئے لا زوال قربانیا ں دے رکھی ہیں۔
اس ساری صورت حال کے پیش نظر اول تو ان دونوں فریقین کے درمیان مذاکراتی عمل ایک غیر فطری عمل ہے کیونکہ ان دونوں قوتوں کی بنیاد ایک دوسرے کے بر عکس ہے۔اور یہی بنیادی اختلاف ان دونوں قوتوں کہ آپس مین مل بیٹھنے نہیں دے رہا۔اور اسی کمزوری کو چند پاکستان مخالف قوتین اپنے ناپاک عزائم کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔
لھذا ان حقائق کے پیش نظر حکومت پاکستان سے التماس ہے کہ اگر وہ واقع ہی مذاکراتی عمل میں سنجیدہ ہے اور اسکو اسکے منطقی انجام تک پہنچاناچاہتے ہیں تو پھر اپنے مئو قف میں کچھ لچک پیدا کریں اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اس عمل کو آگے بڑھائیں۔اوردوسری جانب طالبان قیادت بھی اپنے مئوقف میں نرمی سیکا م لیتے ہوئے امت مسلمہ اور ملک پاکستان کے وسیع تر مفاد میں مذاکرات کے عمل کو پاےئہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں کیونکہ ان مذاکرات کی کامیابی دونوں فریقین کے اپنے اپنے مئوقف میں نرمی پیدا کرنے سے مشروط ہے۔اور اگردونوں فریقین اپنے اپنے مئوقف پر بضد رہے تو پھر حکومت کو چاہئیے کہ وہ اس معاملہ میں کوئی حتمی حکمت عملی وضع کردے کیونکہ اب دہشتگردی کا سدباب ناگزیرہو چکا ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں یہ ملک و ملت مزید کسی بھی قسم کی دہشتگردی کے متحمل نہیں ہو سکتی۔آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ مالک ارض و سماء اس پاک دھرتی کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے، آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ محمد فیصل خالد کے کالمز
-
حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ریاستِ مدینہ سے سانحہ ساہیوال تک
پیر 21 جنوری 2019
-
مذہب کارڈ!
پیر 19 نومبر 2018
-
اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
بدھ 27 دسمبر 2017
-
وزیرِ اعظم کا استعفی
اتوار 28 مئی 2017
-
اِک زرداری سب پہ بھاری!
پیر 26 دسمبر 2016
-
آخر مذہبی جماعتیں کیوں نہیں؟
منگل 1 نومبر 2016
-
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016
حافظ محمد فیصل خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.