
سیاسی صورتِ حال ایک نیا مسئلہ ، یا تاریخ کا حصہ؟
ہفتہ 16 اگست 2014

حافظ محمد فیصل خالد
(جاری ہے)
موجودہ سیاسی صورتِ حال بھی کچھ ایسا ہی منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔ایک طرف تو عمران خان صاحب انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سراپئہ احتجاج ہیں جبکہ دوسری جانب ایک مذہبی جماعت کے رہنماء طاھر القادری صاحب حکومت مخالف تحریک چلائے ہوئے ہیں۔
اب اس ساری سورتِ حال میں ایک باات تو واضع ہو چکی کہ تقریباََ ایک سال قبل بر سر اقتدار آنے والی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کیلئے دن بدن چیلنجز بڑہتے جارہے ہیں اور حکومت کیلئے اپنا اقتدار سمبھالنا مشکل سے مشکل تر ہو تا جا رہا ہے۔اس ساری سیاسی صورتِ حال میں بنیادی طور پر ایک سوال جنم لے تا ہے کہ اگر دیگر جماعتوں کا حکومت مخالف اتحاد حکومت گرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟کیا آنے والی حکومت بہتر طور پر اور عوامی تواقعات کے مطابق کامکر سکے گی؟کیا اس بات کی کوئی گارنٹی ہے کہ آنے والی حکو مت کو مخالفین کی جانب سے اس قسم کی مخالفت کا سامنا نہ ہوگا؟
یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں جو موجودہ سیاسی سورتِ حال میں ہر پاکستانی کت ذہن میں جنم لے رہے ہیں۔کیونکہ اس سیاسی سورتِ حال میں ایک بات تو طے ہے کہ اگر اس حکومت مخالف تحریک کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت جاتی ہے تو پھر آنے واالی حکومت کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیونکہ اگر آج حکومت مخالف جماعتیں حکومت کے خلاف متحد ہو سکتی ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ کل کو کسی بھی جماعت کی آنے والی حکومت کو بھی ایسی ہی سورتِ حال سے دو چار ہونا پڑجائے اور نتیجتاََ ملک مزید سیاسی بحران کا شکار ہوتا چلا جائے۔
اوراگر ایسا ہوتا ہے تو پھرہمیں یہ بات یاادرکھنی چاہئے کہ ایسے کسی بھی قسم کے بحران کے بتیجہ میں اس ملک کے کسی بھی سیاستدان کا کچھ نہ بگڑے گا۔نہ توشریف برادران کا کچھ جائے گا تو نہ ہی خان صاحب کی شان میں کوئی فرق پڑے گا۔نی چو ہدریبرادران کے پروٹوکول میں کو ئی فرق پڑے گا تو نہ ہی قادری صاحب کی رو ٹیاں بند ہوں گی۔ہاں نقصان ہو گا تو صرف و صرف غریب عوام کا جنکو شاید دووقت کا کھانہ بھی میسر نہیں۔مگر ہمارے مخلص سیاستدانوں کو اس عوامی معیارِ زندہ گی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔کیونکہ وہ لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں کم از کم ان کے معیارِزندہ گی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ہمارے سیاست دانوں کو اگرغرض ہے تو اپنی حکومت کے استحکام سے ہے۔ہمارے سیاستدانوں کو اگر غرض ہے تو مڈ ٹرم الیکشنز سے ہے۔انکو اگر کوئی گرض ہے تو نام نہاد انقلاب کی آڑ میں اپنے مفادادکے حصول سے ہے۔عوام کیا ہے؟ کون ہے؟ ان باتوں سے انکا کوئی تعلق نہیں۔
لہذا موجودہ سیاسی حالات کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ تااریخ اس بات پے شاہد ہے کہ قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک بد قسمتی سے اس ملک کو کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں ملا کہ جسکی ترجیحات میں کہیں عوامی فلاح و بہبود بھی ہو۔اور عوام ہمیشہ سے ہی پستی آرہی ہیں۔اوراسی صورتِ حال کے پیشِ نظر دعا ہے اس ملک و ملت کے نصیب میں بھی کوئی ایسا رہنماء ہو جسکی ترجیح ملک و ملت کی فلاح و بہبود ہو۔(آمین)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ محمد فیصل خالد کے کالمز
-
حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ریاستِ مدینہ سے سانحہ ساہیوال تک
پیر 21 جنوری 2019
-
مذہب کارڈ!
پیر 19 نومبر 2018
-
اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
بدھ 27 دسمبر 2017
-
وزیرِ اعظم کا استعفی
اتوار 28 مئی 2017
-
اِک زرداری سب پہ بھاری!
پیر 26 دسمبر 2016
-
آخر مذہبی جماعتیں کیوں نہیں؟
منگل 1 نومبر 2016
-
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016
حافظ محمد فیصل خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.