
سانحہ یوحنا آباد !
جمعرات 19 مارچ 2015

حافظ محمد فیصل خالد
(جاری ہے)
اب اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایک بات واضع طور پر نظر آتی ہے کہ عرصہ دراز سے مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانی مسلمانو کو دہشتگرد اور انتہا پسند جیسے القابات سے نوازا جاتا رہا ہے اور تاحال نوازہ جا رہا ہے۔ ان القابات کے پسِ پشت جو بنیادی وجہ ہے وہ یہ کہ کچھ نام نہا د مسلمان شدت پسندانہ کاروایوں میں واضع طور پر ملوث رہے۔اور اسی بنیاد پر انکونہ صرف ان القابات سے نوازہ گیااورنتیجتاََ مجموعی طور پر عالمی سطح پرمسلمان طبقے کو جس رسوائی کا سامناہے وہ شاید ہی دنیا کی کسی اور قوم کے حصے میں آیا ہو۔
اسی انتہا پسندی کی روک تھام کیلئے عالمی برادری نے ہر ممکن کوشش کرنے کے عزم کو بار بار دہرایا جبکہ حکومتِ پاکستان نے بھی اس لعنت سے منٹنے کیلئے کئی قانون سازیاں کیں۔ ان قانون سازیوں سے لیکر عملے اقدامات تک کئی سنگِ میل بھی عبور کئے تاکہ پاکستان میں بڑہتی ہوئی انتہا پسندی پر قابو پایا جا سکے۔مگربد قسمتی سے یہ شدت پسندی کم ہونے کی بجائے ایک طبقے سے نکل کر دوسرے طبقے میں منتقل ہوتی نظر آرہی ہے جسکی واضع مثال حالیہ واقعات ہیں۔
اب اس ساری صورتِ حال میں (جہاں مسیحی برادری بھی انہیں افعال کی مرتکب ہے جنکی بنیاد پر مسلمان طبقے کو دہشتگرد اور انتہاء پسند کہا جاتا ہے) بنیادی طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتہا پسندی کا ٹائٹل صرف مسلمان طبقے کے ساتھ ہی خاص رہے گا یا عیسائی برادری کی جانب سے پیش آنے والے واقعات کے بعد اس کا اطلاق ان پر بھی ہو گا؟اگر ہو گا تو اسکی سزا و جزا کیا ہوگی اور اگر نہیں ہو گا تو اسکا معیار کون وضع کرے گا؟اور اگر شمار ہوگا تو کیا انسانی حقوق کے تحفظ کے ٹھیکیدار اور غیرملکی فنڈنگ پہ چلنے والے ادارے ان واقعات پر بھی چلائیں گے یا انکے یہ معاملات کے اور انکے فندرز کے مفاداد تک ہی محدود رہیں گے؟
یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو ہمیں آئندہ حکمتِ عملی وضع کرنے سے پہلے adressکرنا ہوگا ۔اور خاص طور پر وہ غیر سرکاری ادارے یا این ۔ جی۔ اوز ۔جو کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی علمبردار کہلاتی ہیں انکو ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے کیونکہ ایسے معاملات کے حل کے بغیر مئوثر انداز میں آگے بڑھنا ممکن نہیں۔اوجہاں تک ایسے واقعات کی ر وک تھام کا تعلق ہے اور اگر ہم نے واقع ہی ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانا ہے تو ہمیں اس بات کا بخوبی احساس کرلینا چائیے کہ قانون رنگ نسل اور مذہب کی تفریق سے بالاتر ہے ۔ اسی تناظر میں ہمیں یہ مسلمہ اصول ذہن نشین کر نا ہوگا کہ ان معاملات کے حل میں ہمیں انفرادی سطح پربھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی تب ہی جاکے ان پر قابو پایا جا سکے گا۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انفرادی اصلاح کے بغیر اجتماعی اصلاح ممکن نہیں۔ اور اگر ہم اپنی انفرادی اصلاح میں کامیاب ہو گئے تو اجتماعی اصلاح خود بخو ہو جائے گی۔ آخر میں دعا ہے کہ مالکِ ارض و سماء ان واقعات میں اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرنے والوں سے راضی ہو او ر پسماندگان کو صبرِ عطا فرمائے اور خالصتاََ اس پاک سر زمیں کی حفاضت فرمائے اور اسے ہر قسم کی اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوط رکھتے ہوئے اس میں بسنے والیوں کو اپنی امان میں رکھے ۔ (آمین)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ محمد فیصل خالد کے کالمز
-
حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ریاستِ مدینہ سے سانحہ ساہیوال تک
پیر 21 جنوری 2019
-
مذہب کارڈ!
پیر 19 نومبر 2018
-
اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
بدھ 27 دسمبر 2017
-
وزیرِ اعظم کا استعفی
اتوار 28 مئی 2017
-
اِک زرداری سب پہ بھاری!
پیر 26 دسمبر 2016
-
آخر مذہبی جماعتیں کیوں نہیں؟
منگل 1 نومبر 2016
-
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016
حافظ محمد فیصل خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.