
کس سے منصفی چاہیں؟؟
بدھ 25 مئی 2016

حافظ ذوہیب طیب
(جاری ہے)
قارئین ! امریکہ کی طرف سے ڈرون حملوں کا سلسلہ تو پچھلے ڈیڑھ عشرے سے جاری ہے لیکن مئی2011میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا بہانہ بنا کر رات کے اندھیرے اور پاکستانی حکمرانوں کو بھی اندھیرے میں رکھ کر امریکی سی۔آئی۔اے کے بد معاشوں نے طاقت کے نشے میں مست ،ملک عزیز کی سر حدوں کی پامالی کرتے ہوئے لڑا کا ہیلی کاپٹروں اور جدید اسلحہ کا پوری طرح استعمال کیا اور پھر باعزت طریقے سے واپس لوٹ گئے۔ شاید کہ ہمارے حکمران اس موقع پر امریکہ کی اس بد معاشی پر صدائے احتجاج بلند کرتے تو آج ایسا نہ ہوتا کہ اب خیبر پختونخواہ سے بلوچستان کا رُخ کرتے ہو ئے امریکہ بد معاش نے ایک دفعہ پھر ڈرون حملوں کا سلسہ شروع کر دیا ہے اور یہاں بھی بقول وزیر اعظم :” ہمیں اس حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی“ ۔
اس سے قطع نظر کہ حملے میں مر نے والا ملا منصور تھا کہ نہیں ،لیکن امریکہ کو یہ طاقت اور اپنے لوگوں کو مروانے کا لائسنس ،حکمرانوں کی طویل خاموشی نے ہی دیا ہے کہ وہ جب چاہے، جس کو چاہے اور جس طرح چاہے پاکستان کی حدود میں داخل ہو ، لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارے اور چلا جائے ۔ کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں حالیہ ڈرون حملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر اب بھی ہمارے حکمرانوں اور عسکری اداروں کے سر براہوں نے ملک کو تباہی کی جانب لے جانے والے ان عوامل کو نہ روکا تو خدا نخواستہ پھر ہمارا کوئی صوبہ، شہراور علاقہ امریکہ کے قہر سے محفوظ نہ رہے گا۔
قارئین کرام !گذشتہ دنوں روزنامہ نئی بات کے رپورٹر رانا خیام نے دہشت گردی کی روک تھام کے لئے بنا ئے جانے والے ادارے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ(C.T.D)کے حوالے سے ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے نئی بات میڈیا نیٹ ورک کو بھیجے گئے متاثرین ؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے خط کا ذکر کیا جسے پڑھ کے دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ اوپر امریکہ کی جانب سے ہونے والے ظلم کا ذکر کیا لیکن اس سے کئی زیادہ ظلم تو ہمارے اپنے ادارے، اپنے لوگ کر رہے ہیں ۔ تحقیقاتی صحافی اسد مرزا کی رپورٹ کے مطابق ایک طرف تو کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے کچھ با اثر ملازمین ، انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو 44لاکھ رشوت لیکر باعزت بری کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ جن کو چاہیں دہشت گرد قرار دیکر اٹھا لائیں اور پھر کئی مہینوں تک حراست میں رکھ کر ان کے ورثا سے سودے بازی کرتے،معقول رقم ملنے پر اسے چھوڑ دیتے یا سفارش پر اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیتے تھے ۔ ایسے واقعات اگر سچ ہیں تو پھر کون ہے جو اس سارے ظلم پر ایکشن لے؟ اور ان بے گناہ لوگوں کو بے گناہی کی قید کے عذاب سے نجات دلائے؟
ان حالات میں بطور ایک پاکستانی شہری ہونے کے میرے سامنے کئی اندیشے جنم لیتے ہیں کہ کیا سب معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے؟کیا نسل در نسل ہمارے اوپر ایسے حکمران مسلط رہیں گے جو اپنے مفادات کو عزیز رکھتے ہوئے قومی مفا دات کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں ۔ ایسے میں ایک دفعہ پھر فیض کے یہ اشعار دل و دماغ پر چھائے ہیں کہ
کس سے منصفی چاہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.