
سانحہ قصور: پولیس کتنی ذمہ دار ہے؟
منگل 30 جنوری 2018

حافظ ذوہیب طیب
(جاری ہے)
قارئین ! با وثوق ذرائع کے مطابق 2015سے 2018تک قصور میں آٹھ بچیوں سے زیادتی ہوئی۔ وہ بچیاں جن کے قہقہے گھروں کی رونق ہوتے تھے ، جن کی معصوم باتیں سخت دل انسانوں کو بھی مسکرانے پر مجبور کر دیتی تھیں، ان پیاری کلیوں کو بُری طرح مسل دیا گیا،ماؤں کی گودوں کو اجاڑ دیا گیا ۔سفاک مجرم نے آٹھ معصوم پریوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔یاد رہے یہ اعداد و شمار وہ ہیں جن کی رپورٹ کی گئی لیکن ایسے کتنے واقعات ہیں جن کی رپورٹ ہی نہیں کی گئی ۔ ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ 2015میں منظر عام پرا ٓنے والے 2008سے جاری جنسی سیکنڈل میں ملوث گرفتار ہونے والے ملزموں میں سے 10ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں جو کیسز واپس لینے کے لئے متاثرین کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ زیادتی کا شکارتین سو سے زائد لڑکے نقل مکانی کر گئے ہیں۔ پولیس پہلے بھی خاموش تھی اور اب بھی خاموش ہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ سالانہ اربوں روپے کا بجٹ ہضم کر نے اور بڑے بڑے دعوے کر نے والی پولیس ان تمام واقعات پر خاموش تماشائی کا کردار اداء کرتی رہی ۔ محکمہ پولیس میں ایک خاص تعداد میں پائے جانے والے پولیس اہلکا سے سے لیکر افسر،جب انہوں نے اس محکمے کو جوائن کیا تو ان کے گھروں میں غربت، فاقہ اور بے سر و سامانی کا یہ عالم تھا کہ ان کے چہرے سے یہ چیزیں عیاں ہوتی تھیں ، لیکن حرام خوری میں انہوں نے ایسے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ بے گناہوں اور معصوم لوگوں کو پیسے لے کر اور سیاسی آقاؤں کی آشیر باد حاصل کر نے اور پھر بعد میں اپنی من پسند پوسٹنگ حاصل کر نے کے لئے جعلی پولیس مقابلوں میں پار کرتے رہے ۔ ان کے بڑے محلات، گاڑیاں، امپورٹڈ فر نیچر، عیش و عشرت کی ہرا ٓسائش ، انہی معصوم لوگوں کے خون سے وجود میں آئے ہیں ۔
راؤ انوار کی کہانی تو ایک طرف کہ پولیس رپورٹ کے مطابق کتنے پولیس مقابلے جعلی قرار پائے لیکن ہمارے حکمرانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہے ۔ قانو ن کی حکمرانی کا یہ عالم ہے کہ یہاں صرف ایک واقعے کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ گذشتہ سال قصور میں ہی ایمان فاطمہ نامی بچی کے قتل کے شبے میں پکڑے جانے والے آٹھ بہنوں اور بوڑھے ماں باپ کے واحد سہارے مدثر کو بغیر کسی تفتیش و ڈی۔این۔اے ٹیسٹ کے، صرف ایک کونسلر کی سفارش پر 4 گھنٹے بعد ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جا تا ہے ۔ اس واقعے کے بعد سب سے پہلے میرے دوست و سینئیر صحافی فرحان علی خان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اُس نے جاکر وہاں حقائق کاپتہ لگایا اور معلوم ہوا کہ یہ انتہائی غریب انسان تھا ، قصور میں اس کا سسرال تھا اور یہ یہاں مقامی فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا۔اس کا صرف نو ماہ کا معصوم بچہ عبداللہ ہے اور ظالموں نے اپنی واہ واہ کے لئے بوڑھے والدین ، جوان بہنوں و بیوی اور چھوٹے عبداللہ کو تاحیات بے آسرا ء کر دیا ہے ۔ مزید ظلم تو یہ ہوا کہ معصوم مدثر کے قتل کا مقدمہ اُس کے چھوٹے بھائی کے خلاف کر دیا گیا اورتدفین کے وقت بھی اہل خانہ کو اس قدر اذیت پہنچائی گئی جنہیں لفظوں میں بیان کر نا ناممکن ہے ۔
قارئین کرام !میرے نزدیک قصور میں جنسی زیادتی اور بعد ازاں قتل کئے جانی والی معصوم پریوں کی موت کی ذمہ دار پولیس ہے ۔ اگر پہلے ہی کیس میں زیادتی کا نشانہ بننے والی بچی کو اپنی بیٹی سمجھتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر تفتیش ہوتی ، اصل ملزمان کا پتہ لگایا جاتا تو کم ازکم اتنے واقعات رونما نہ ہوتے ۔ بطور ایک تحقیقاتی صحافی کے میرے سامنے جو سوال سینہ چوڑا کئے کھڑا ہے کہ آخر وہ کیاوجوہات ہیں کہ بڑے بڑے دعوے کر نے والی پنجاب پولیس ، آٹھ واقعات کے بعد بھی ایک چھوٹے سے مجرم کو گرفتار کر نے میں ناکام رہی ؟ اگر یہ وجہ ہے تو پھر بہت سے کئی سولات جنم لیتے ہیں جو پھر کسی کالم میں عرض کروں گایا پھر ایسے تما م واقعات کے پیچھے کوئی مافیا ، طاقتور لوگ اور سیاسی پشت پناہی رکھنے والے لوگ ہیں جو ابھی بھی منظر عام پر نہیں لا جارہے؟ اب چونکہ معاملہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس خود دیکھ رہے ہیں میری ان سے یہ استدعا ہے کہ کیس کو اس پہلو سے بھی دیکھا جائے اور 9ماہ کے عبدللہ کے باپ اوراس جیسے معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتانے والے پولیس اہلکاروں و افسروں کے خلاف بھی کوئی ایسا تاریخی فیصلہ کیا جائے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.