پولیس ملازمین کا مورال بلند لیکن۔۔۔۔۔؟

بدھ 14 مارچ 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

مجھ سمیت اکثر شہری پولیس کے نفرت آمیز روئیے اور غیراخلاقی زبا ن پر شکایت کرتے نظر آتے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ گوارہ نہیں کیا کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہم جیسے شہری ، انسان اور پاکستانی ہوتے ہوئے بھی پولیس ملازمین کے لہجے اس قدر ترش ہیں ۔ میرا چونکہ بطور تحقیقاتی صحافی پولیس کے ساتھ کافی رابطہ رہتا ہے اس وجہ سے مجھے پولیس ملازمین کے زہر سے بھرے لہجوں کے پیچھے جو وجوہات نظر آئیں اس میں سب سے بڑی وجہ ان کا سخت ترین لائف سٹائل ہے ۔

سخت ترین ڈیوٹی، بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتی تھانوں کی عمارتیں،کھلے آسمان تلے سالہا سال سے استعمال ہوتی پھٹی گلی ہوئی ترپال کے کپڑے سے تیار کیا گیا کمرہ جس میں مچھروں ، مکھیوں اور دیگر حشرات الارض کی موجودگی کے ساتھ موسم کی تمازت کے آثار بھی شدت کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ایک طرف بنے ہوئے کھڈوں کی مانند واش رومز جس کے دونوں اطراف چادروں کا پردہ اور باقی دونوں کھلے ہوتے ہیں ، آثار قدیمہ کا منظر پیش کرتے ہوئے یہ واحد واش روم نہانے ا ور قضائے حاجت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

پھر سب سے بڑی وجہ ہفتہ وار چھٹی تو دور کی بات عید تہوار پر بھی اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں سے دور گذارتے ہیں ۔ یہی وہ سب سے بڑی نفسیاتی وجہ ہے جو چاہتے نا چاہتے انسان کو فرسٹریشن کا مریض بنا دیتی ہے اور پھر نفرت انگیز لہجہ مزاج کاحصہ بن جا تا ہے ۔
قارئین کرام !بھلا ہو پنجاب کے آئی جی عارف نواز کا جو خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں اور جن کی تعریف عصر حاضر کے صوفی پروفیسر احمد رفیق اختر سے بھی کئی بار سننے کو ملتی ہے ۔

انہوں نے محکمہ پولیس میں کئی ایسے فلاحی منصوبوں کا آغاز کیا جس کے بہت اچھے نتائج حاصل ہو رہے ہیں ۔ بالخصوص لاہور پولیس کے چیف امین وینس،اور ڈی۔آئی،جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف پولیس نے جوانوں کا مورال بلند کر نے اور صدیوں پرانی فرسٹریشن سے نکالنے کے لئے تھانوں کی نئی عمارتوں بشمول پولیس ملازمین کی رہائشی کمروں کے لئے کام شروع کیا ہوا ہے اور جس میں کئی عمارتیں تو بن چکی اور باقی تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔

اس کے علاوہ روز ہی کسی ایسی سر گرمی کا انعقاد کرتے ہیں جسکی وجہ سے ملازمین میں خود اعتمادی پیدا ہو رہی ہے اور ان کے مزاج میں بھی کافی حد تک مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ حالیہ دنوں میں ملازمین کے اہل خانہ کے لئے شاندار فیملی گالا کا انعقاد بھی ایک ایسی ہی کاوش تھی جس دن ہر چہرہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشی کی وجہ سے شاداب دکھائی دے رہا تھا۔

فیملی گالا کے انعقاد میں ایس۔پی ہیڈ کواٹر عاطف نذیر اور ایس۔پی سول لائنزصفدر رضا کاظمی کی خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔
قارئین محترم !میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب پولیس کے آئی۔جی کی پالیسیوں کی بدولت جہاں پولیس ملازمین کا مورال بلند ہو رہا ہے وہاں پولیس کلچر بھی تبدیل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے تھانہ کلچر میں بھی کئی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں لیکن یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب پولیس ابھی بھی سیاسی آقاؤں کی گرفت میں اس قدر پھنسی ہوئی ہے کہ افسران کی جانب سے کئے گئے تمام مثبت اقدامات سیاسی آقاؤں کے کسی ایک فیصلے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔

اس کی تازہ مثال وزیر اعلیٰ کی طرف سے ایس۔پی صدر فیصل شہزاد کو او۔ایس۔ڈی بنا نے کے احکامات ہیں ۔ وجہ جس کی یہ ہے کہ فیصل شہزاد اپنی ڈویژن میں پتنگ بازی پر پابندی لگانے پر ناکام رہے ہیں ۔ جبکہ حقائق دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پولیس پتنگ بازی کے خلاف اپنے تئیں کوششوں میں مصروف ہے لیکن جب تک والدین اپنے بچوں کی تربیت نہیں کریں گے جب تک اس خونی کھیل سے نجات ممکن نہیں ۔

آئے روز میرے مشاہدے میں کئی ایسے واقعات آتے ہیں کہ پولیس پتنگ بازی کر نے والے کو گرفتار کرتی ہے تو کچھ ہی دیر میں سیاسی آقاؤں کے گماشتے اپنا رعب جھاڑتے ہوئے ملزم کو باعزت اپنے ساتھ لے جاتے ہیں جس کے پیچھے وہی سیاسی کلچر نظرآتا ہے کہ اگر ایس۔ایچ۔او اُن لوگوں کی بات نہ مانے تو کچھ ہی دیر میں اس کی معطلی کا پروانہ جاری ہو جاتا ہے ۔ سیاسی آقا تو دور کی بات یہاں تو سر کاری بابو بھی مظلوم لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی کھانے والے اپنے رشتے داروں کے خلاف کاروائی کر نے پر ایس۔

ایچ۔او پر اینٹی کرپشن میں مقدمہ درج کرانے کی دھمکی دینے سے باز نہیں آتے ۔ جو افسر حق کے ساتھ ڈتا رہتا ہے وہ بالآخر ان بابوؤں کی نفرت کا شکار بن جاتا ہے۔ فیصل شہزاد کا شمار بھی پولیس کے ان افسران میں کیا جاتا ہے جو جہاں جاتے ہیں ایمانداری اور شفافیت کی مثال چھوڑتے ہیں جس کا میں ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ اگر کسی کا 1000روپے مالیت کا موبائل بھی چوری ہوا ہے تو اس کی درخواست پر فوری ایف۔

آئی۔آر ہوتی تھی ۔ ایسے افسران کے خلاف فضول قسم کا الزام لگا کر اسے او۔ایس۔ڈی بنا دینا ، اس کی وجہ سے بھی پولیس کا مورال کم ہو رہا ہے ۔ اب یہ پولیس کے افسران پر منحصر ہے کہ وہ کیسے پولیس کو سیاسی گرفت سے آزاد کرواتے ہیں اورپولیس ملازمین و افسران کے مورال کو بلند کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں پولیس کو صرف عوامی خدمت گار فورس بنا نے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :