چوہدری عبد الرحمٰن ! فرد نہیں ایک تحریک کا نام

پیر 9 اپریل 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

پوری دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی کئی لوگ کاروبار کو فروغ دینے کے لئے نئے آئیڈیاز ، نا امیدی کے خاتمے اور کامیا ب زندگی کے آغاز کے لئے لیکچرز، سیمینارز اور مختلف اقسام کی ورکشاپس منعقد کراتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہماری نوجوان نسل میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہو پارہی اور کامیابی کے موضوع پر کام کر نے والے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر پارہے۔

میرے نزدیک اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں لوکل ہیروز کی بجائے مغربی ہیروز کی بات کرتے ہیں ۔
یہ لوگ پاکستانی کامیاب کا روباری لوگوں اور اداروں کی بجائے مغربی کاروباری لوگوں اور اداروں کی کامیابی کی کہانیوں کو لوگوں میں تحریک پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیمینار کے دوران تو کامیابی کا بھوت سر پر سوار رہتا ہے لیکن جیسے ہی ہال سے گھر تک کا سفر طے کیا جا تا ہے تو اپنے ارد گرد کے مسائل ، پریشانیاں اور ردیگر دوسرے معاملات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ان حالات میں بطور پاکستانی ہم کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں ؟ یہاں لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں ، ٹانگیں کھینچتے ہیں اور ہر جائز کام کے لئے بھی رشوت دینی پڑتی ہے جبکہ مغرب میں تو ہر طرح کی آسائشیں ہیں، تعلیم مفت ہے ، علاج بہترین ہے اور پھر وہاں جائز کام کے لئے کسی کو رشوت بھی تو نہیں دینی پڑتی؟ وہا ں لوگ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں ، لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو کامیاب انسان بنا نے میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سوال کا جواب تلاش کر نے کی کشمکش میں کچھ روز بعدکامیاب زندگی گذارنے کا خواب حقیقت میں تبدیل ہو نے کی بجائے خواب ہی رہ جاتا ہے ۔
میں نے کئی دفعہ کامیابی کو اپنا موضوع بنا نے والے دانشوروں سے درخواست کی کہ آپ اپنے سیمینارز میں مغربی ہیروز کی کامیابی کی مثالیں دینے کی بجائے لوکل ہیروز کی کامیابی کی مثالیں کیوں نہیں دیتے؟ جس کے جواب میں یہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علم میں ایسی کوئی کامیابی کی کہانی نہیں جو کسی لوکل ہیرو کی ہو۔

میں ان کی یہ بات سن کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کی کم علمی کی ہی وجہ ہے کہ ان کی گفتگو میں وہ اثر اور لوگوں کو کامیابی پر ابھارنے والی مٹھاس نہیں ہوتی ۔ ان کے نزدیک پہلی ترجیح پیسہ ہوتا ہے لہذا وہ اتنی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے کہ کم از کم پاکستان میں کامیاب ہونے والے لوگوں کی کہانیو ں کو تلاش کرتے اور لوگوں تک پہنچاتے۔
قارئین ! ہمارے ملک میں کئی ایسے لوکل ہیروز موجود ہیں جو نہ ختم ہونے والے مسائل کے باوجود کامیابیوں کی سرحدوں کو عبور کرتے ہیں اور اپنے حصے کا چراغ روشن کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کو بھی کامیاب ہو تا دیکھنا چاہتے ہیں اور جس کے لئے وہ اپنے تما م تر وسائل بھی لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔

ان میں سے ایسے ہی ایک فرد کا نام چوہدری عبد الرحمٰن ہے ۔درحقیقت چوہدری عبد الرحمٰن ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے ۔ خود کامیاب ہو کر دوسروں کو کامیابی پر اکسانے والی تحریک ، لوگوں کو علم وہدایت کے رستے پر گامزن کر نے والی تحریک اور یہ پاکستان کے مستقبل کو روشن بنا نے کے عز م کو لے کر میدان عمل میں حقیقی جدو جہد کررہے ہیں ۔ چوہدری صاحب قرآن کی آیت جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کہ لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے اس نے کوشش کی ، کی زندہ مثال ہیں ۔

اکیڈمی سے شروع ہونے والا سلسلہ سپیرئیر کالج، یونیورسٹی، میڈیکل کالج، ڈینٹل کالج سے ہوتا ہوا روزنامہ نئی بات ، نیو ٹی۔وی اور اب لاہور رنگ تک آ پہنچا ہے ۔آپ ان کی دور اندیشی اور اپنی محنت کے نتیجے میں حاصل ہو نے والے نتائج کا اندازہ 2008کی ان کی ایک ویڈیو سے لگا سکتے ہیں کہ جس میں سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ آپ د س سالوں بعد سپیرئیر کالج کو کہاں دیکھتے ہیں ؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب پورے پاکستان کے ہر شہر میں سپیرئیر کا کیمپس قائم ہو گا اور یہ پاکستان میں علم اور روشنی کے فروغ کے لئے اپنا حصہ ڈال رہا ہو گا۔

آج 2018میں سپیرئیر کالج پاکستان کے ہر شہر میں اپنا وسیع نیٹ ورک قائم کر چکا ہے۔جو کامیابی کی تما م حدوں کو توڑتے ہوئے علم کے پیاسوں کی پیاس کو بجھا رہا ہے اور چوہدری صاحب کے ویژن کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔
چوہدری عبد الرحمٰن صاحب کا یہ بھی کمال ہے کہ ان کی ہر کاوش کے پیچھے کوئی نہ کوئی ٹھوس نظریہ موجود ہے ۔

سپیرئیر کالج و یونیورسٹی کے پیچھے جو نظریہ کار فر ما ہے وہ ان کی یہ سوچ ہے کہ ان کے نزدیک اگر پاکستانی قوم کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے تو وہ صرف تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ نئی بات ونیو ٹی۔وی کے پیچھے جس نظرئیے کا ہاتھ ہے وہ پاکستانیوں کو کلچرل وار کہ جس کے تحت دوسری قومیں اپنے نظریات زبردستی ٹھونسنے کا کام کر رہی ہیں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسے میڈیا نیٹ ورک کاآغاز ہے جو ہماری نظریاتی سرحدوں کا محافظ اور امین ہے ۔

پہلے نئی بات اور پھر نیو ٹی۔وی حقیقی معنوں میں پاکستانیو کی آواز بنا ،نظریاتی سرحدوں کا محافظ بنا بلکہ جو لوگ یہاں اندھیروں ، مایوسیوں اور نا امیدیوں اور بہت سے مسائل کا جھوٹا پرو پیگنڈہ کرتے تھے ، ان کے جھوٹ کو عیاں کر نے کے لئے ”آئیڈیا کروڑوں کا “کا آغاز کر کے یہاں چار سو پھیلتی روشنی ، مختلف رنگ اور اس دھرتی کے نوجوانوں کے ذہنوں میں پنپتے انمول آئیڈیاز کو دنیا کے سامنے لایا جس کے نتیجے میں پاکستان میں نئے کاروبار کر نے والے لوگوں کو ہمت میسر آئی اور یوں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نئے کاروباری لوگوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔


قارئین محترم !میں سمجھتا ہوں کہ جس دن اس ملک میں چوہدری عبد الرحمٰن جیسے چند مزید لوگ پیدا ہو گئے اور جس طرح یہ ایک تحریک کی طرح کام کر رہے ہیں اس طرح ان لوگوں نے بھی کام شروع کر دیا تو پاکستان کو ترقی پذیر اور خو شحال پاکستان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ چوہدری صاحب جیسے لوگوں کی کامیاب زندگی پر ڈاکو منڑی بنائی جائے ، کتابیں لکھی جائیں اور اسے پاکستان کے نوجوانوں تک پہنچایا جائے کہ ہم جیسا ایک عام انسان لا تعدادمسائل کے ہوتے ہوئے بے تحاشہ وسائل پیدا کر سکتا ہے تو ہم بھی اللہ کی ذات اور اپنی محنت کا بہترین صلہ ملنے کا یقین رکھتے ہوئے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ اللہ کرے ایسا ہو جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :