کیا قائد اعظم محمد علی جناح سیکولر وطن چاہتے تھے؟

منگل 28 دسمبر 2021

Hafiza Ayesha Ahmad

حافظہ عاٸشہ احمد

پاکستان ہمارا ملک ہمارا  پیارا وطن، سب ہی جانتے ہیں کہ بے حد مشکلات و قربانیوں اور شبانہ روز محنت کرکے حاصل کیا گیا ـ أن قربانیوں پر، شہداء ِ تحریک پاکستان پر ان. گنت کتابیں لکھی گئیں بلکہ آج تک لکھی جارہی ہیں ـ مگر  تاریخ پاکستان  نے ایک ایسی لازوال داستاں قائم کی کہ دشمنانِ پاک وطن کی لاکھوں کوششوں و سازشوں کے باوجود اس داستاں کے نشاں ثبت ہونے سے نہ روک سکے ـ آج بھی پاکستان میں ان. قربانیاں دینے  والے شہداء کو خراج تحسین مکمل عقیدت، احترام اور محبت کے ساتھ ساتھ پر جوش طریقے سے پیش کیا جاتا ہے ـ اور ان شاء اللہ پاکستان رہتی دنیا تک قائم رہے گا اور پاکستان کی رعایا اپنے وطن سے اسی طرح محبت کرتی رہے گی ـ
تحریک پاکستان میں جہاں دیگر رہنماؤں نے اپنی خدمات پیش کی اپنا تن من دھن سب اس وطن پاک کو حاصل کرنے میں لمگن. کردیا تھا ـ وہیں بانی پاکستان کی خدمات بھی اپنی مثال آپ ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ نے پاکستان کو عملی طور پر تشکیل دینے کے لیے جو کارنامے ثابت قدمی سے انجام دئیے ہم سب ان سے واقف ہیں ـ  مگر کچھ بد فطرت لوگ قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں یہ افراط پھیلاتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک سیکولر اسٹیٹ چاہتے تھے ـ اگرچہ اس افراط و جھوٹ کا رد بھی کیا گیا اور حقیقت میں بھی بیان کی گئی کہ یہ صرف ایک بہتان ہے ـ مگر دشمنان پاکستان کو چین نہیں آیا اور وہ اپنے  گمانوں کو سچ ثابت کرنے میں آج تک کمر بستہ ہیں ـ بحیثیت پاکستانی میں اپنی ذمہ داری سمجھتی ہوں کہ بانی پاکستان کے بارے میں اس غلط گمان کو قائد اعظم کے ہی خطابات و خطوط  کی روشنی میں رد کروںـ
بلاشبہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا ـ پاکستان ’لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ نعروں کی گونج میں حاصل کیا گیا  ـقائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطابات میں جابجا اسی دو قومی نظریئے اورنظریہ پاکستان کا پرچار کیا۔

(جاری ہے)

اور غالباً یہ ہی وجہ رہی کہ دو قومی نظریہ سے مسلمان ہی نہیں غیر مسلم تک بخوبی واقف ہیں ـ اور اسی سلسلے کی وضاحت بانی ِ پاکستان کے اس خطاب سے ہوتی ہے جو  آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 8مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
پاکستان تو اسی دن وجود میں آگیا تھا، جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن اور نسل نہیں......
صرف یہ ہی  نہیں قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ کے خطبات و خطوط میں، انگریزوں، ہندوؤں سب کے سامنے واضح طور پر اسلام و دیگر مذاہب کا فرق ہوتا تھا اور  اس کے بعد مطالبہِ علیحدہ وطن ـ  غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ مطالبہ ہوتا الگ وطن و اسلام کے لیے ہی تھا مغالطہ آفرینی کرنے والے شاید بھول گئے تحریک پاکستان میں ایک ہی نعرہ گونجتا تھا ـ پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ، پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ خدا کا نام. لے کر وطن کی بنیاد رکھنے والے   کجا کے  بے دین  مملکت کی بات کریں عجیب تر بات ہونے کے ساتھ بہتان کی بھی حد ہے یہ ـ کچھ اور خطبات و خطوط مثال و ثبوت کے طور پر موجود ہیں ـ کہ قائد اعظم. محمد علی جناح مسلمانوں کے لیے کیا چاہتے تھے ـ
23 مارچ 1940ء کے تاریخی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے  بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:اسلام اور ہندو دھرم محض مذاہب نہیں، درحقیقت مختلف معاشرتی نظام ہیں۔

چنانچہ اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہئے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔ یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں اور باہم متصادم ہیں۔


ایک موقع  قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ نے  فرمایا:
ہم پاکستان کا مطالبہ صرف ایک خطہ زمین حاصل کرنے کے لئے نہیں کررہے بلکہ ہم اسے اسلامی نظام حیات کی ایک لیبارٹری کے طور پر استعمال کرکے دنیا والوں کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ دور جدید میں بھی اسلام ہی ہمارے تمام مسائل کا واحد حل اور ہماری ترقی کا ضامن ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
میں مطمئن ہوں کہ قرآن و سنت کے زندہ و جاوید قانون پر مبنی ریاست (پاکستان) دنیا کی بہترین اور مثالی سلطنت ہوگی۔

یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم، کمیونزم، مارکسزم، کیپیٹل ازم کا قبرستان بن جائے گی، جس طرح سرور کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ اس وقت کے تمام نظام ہائے فرسودہ کا گورستان بنا۔۔۔ پاکستان میں اگر کسی نے روٹی کے نام پر اسلام کے خلاف کام کرنا چاہا یا اسلام کی آڑ میں کیپیٹل ازم، سوشلزم، کمیونزم، یا مارکسزم کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی غیور عوام اسے کبھی برداشت نہیں کرے گی۔


1945ء میں  گاندھی کے نام ایک خط میں  قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے نظریہ پاکستان کی بابت وضاحت کرتے ہوئے لکھا
"ہندو اور مسلمان ہر چیز میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہمار امذہب، تہذیب و ثقافت، تاریخ، زبان، طرز تعمیر، موسیقی، قانون، اصول قانون، کھانے پینے کے انداز، معاشرت کے طریقے، لباس غرض کہ ہر چیز ہندوؤں سے مختلف ہے، صرف ووٹ ڈالنے کی صندوقچی میں دونوں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔

"
یہ ہی نہیں ایک ایمان بیدار کردینے والے خطبہ کا حصہ ہے  جب 15 نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے  فرمایا :" مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13 سو سال قبل قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔

الحمدللہ قرآن مجید ہماری دینی رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔"
یہ تھا وہ پاکستان جس کا  خواب و تکمیل  قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ نے اسلامی خطوط و اسلام کے مطابق زندگی گذارنے کے لیے چاہا ـ أن کے ہر ہر خطبے میں جب وہ اپنے نرم مگر پر عزم و پر جوش لہجے سے تحریک پاکستان کے لیے سرگرداں نوجوانوں کے جسم میں خون کو گرمادیا کرتے تھے ـ ہمت ولولہ ان کی نس نس میں دوڑنے لگتا تھا ـ ہاں تب تب بات ایک الگ اسلامی مملکت کی ہی ہوتی تھی اور الحمد للہ رب العالمین قائد اعظم نے جس مملکت ِ اسلامیہ کا عزم رکھا تھا وہ مکمل بھی فرمایا ـ مگر افسوس آج ہم اس قائد کے پیغامات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو وجود میں لانے کی اصل وجہ بھی بھول چکے ہیں نہ صرف یہ بلکہ بانی پاکستان کے مقاصد کو بھی غلط رنگ سے تعبیر کرنے لگے ہیں ـ قائد اعظم تو جو مملکت اسلامی چاہتے وہ ہم تک پہنچا گئے اب ہمارا کام ہے اس مملکت اسلامیہ میں اسلام اور مملکت کو کیسے قائم و دائم رکھنا کیسے اس کی حفاظت کرنی ہے ـ
رب کریم ہمارے ملک کو شر پسندوں کے شر اور دشمنان پاکستان سے عافیت میں رکھے آمین ـ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :