کرسمس اور مسلمان۔ قسط نمبر1

ہفتہ 26 دسمبر 2020

Hafiza Khansa Akram

حافظہ خنساء اکرم

ابتدائے آفرینش ہے ۔۔۔۔۔
رب کبریا کی جانب سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہِ تعظیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔
جسے سنتے ہی فرشتے سربسجود ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔ مگر ایک مخلوق جو آگ کی پیداوار ہے اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے متکبر بننے کی جہد مسلسل میں مصروف ہے ۔ ۔۔۔۔
اور اپنے شیطانی عمل کی بدولت راندہ درگاہ ہونے لگی ہے مگر پھر بھی خالق کائنات کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی جسارت کر رہی ہے۔

۔
اور گھمنڈ کا یہ عالم ہے کہ وعدہ کر رہی ہے کہ میں آدم اور اس کی اولاد کو بھی اس جنت سے نکلوانے کا ہر حربہ استعمال کروں گا کیونکہ میری اس نعمت سے محرومی کا سبب یہی مٹی کا پتلا ہے۔۔
جواب الہیٰ دیا جاتا ہے۔
اِنَّ عِبَادِىْ لَـيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَـعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ۔

(جاری ہے)

( الحجر:42)
"بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں." 
  پھر منزل منظر بدلا اور موجودہ صدی میں خود کو مکین دیکھا مگر اس دور میں پہنچنے تک بہت سے لوگوں کے قصص سے بھی سابقہ پڑا اور ہر بار ابلیس اپنا وعدہ وفا کرتا دکھائی دیا۔


آفرین ہے اس مٹی کے پتلے اور اس آگ کی مخلوق کے شرف میں جہاں اتنا فرق تھا وہیں اپنے قول کو نبھانے کا جذبہ برعکس ثابت ہوا تھا۔
 جو اشرف المخلوقات تھا وہ اپنے مالک سے کیا وعدہ پورا نہ کرسکا اور ناری اپنے وعدے پر قائم رہتے ہوئے اپنی روش کو کبھی فراموش نہ کرسکا۔۔
اس بزم کونین کو سجانے اور اشرف المخلوقات کو اس کا بھولا وعدہ یاد دلانے بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام آتے رہے۔


مگر یہ اس نے خاکی وجود نے ناری سے دوستی استوار رکھتے ہوئے اپنے نبی علیہ السلام کی تعلیمات کو اہمیت نہ دی۔۔
اور دین میں داخل ہو کر بھی دین میں داخل نہ ہوسکے۔
یہی وجہ تھی کہ جب حقیقی رب سے تعلق استوار نہ کیا تو روحانی تشنگی کو بجھانے کے لئے باطل خداؤں کا مقرّب بننے کی کوشش شروع ہوئی۔۔۔
اور دنیا بھر میں نت نئے مذاہب کا قیام عمل میں آیا۔

ان کو دیکھ کر جو چند لوگ اپنی شریعت پر عمل پیرا تھے احساس کمتری میں مبتلا ہونے لگے اور اپنے مذہبی تہوار کے طور پر دوسروں کی خود ساختہ رسومات کی ادائیگی کرنے لگے۔ تاکہ مذہب کی چار دیواری میں محفوظ بھی رہ سکیں اور غیروں کے ساتھ مسرور بھی۔۔
ایسی سوچ کے ہی حامل لوگوں میں شامل اہل کتاب بھی ان خرافات کا بڑے پیمانے پر شکار ہوئے۔ یہود نے فرعونِ مصراور بابل کے فرما ں روا بخت نصر کی غلامی میں ذہنی طور پر مغلوب اور متاثر ہو کر مصر و بابل میایمان بالجِبتیعنی جادو سیکھا اوراسیریٔ بابل (Babylonish Captivity)کے زمانہ میں فارس کے اہرمن پرستوں سے 'ایمان بالطاغوت' یونی شیطان پرستی کا درس لیا ۔

پھر بالکل اسی طرح عیسائیوں نے یونانیوں (Greeks)، رومیوں (Romans)، طیوتانیوں(Tutains)اوردیگرمشرک(Pagan) اقوام سے بہت سی بدعات مستعار لیں ۔مثلا عید میلادالمسیح (Christmas) ،عید قیامۃ المسیح (Easter)، بپتسمہ (Baptism)اور صلیب (Cross)جیسی رسومات کو مذہب کے نام پر فروغ ملا ۔
اور متنازعہ ترین رسم "کرسمس " کی اہمیت کو سب سے اجاگر کیا گیا۔
مسیحیت میں کِرِسْمَس، بڑا دن، جشن ولادت مسیح، عید ولادت مسیح اور عید ولادت خداوند ایسٹر کے بعد سب سے اہم تہوار سمجھا جاتا ہے۔

اس تہوار کے موقع پر یسوع مسیح کی ولادت کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔
اگر ہم اس تہوار کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں تو یہ بات بہت مایوس کن ہے کہ عیسائیوں نے غیروں کی تقلید میں اپنے مذہب میں جن رسومات کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کیا ان میں سے ایک بڑی رسم" کرسمس" تھی ۔
کرسمس کا لفظ بائبل میں موجود نہیں یہ اصطلاح دو الفاظ" Christ" یعنی "مسیح" اور "Mass " یعنی "کیتھولک رسم" ۔


مراد یہ ہے کہ ایسی کیتھولک رسم جو 25 دسمبر کی رات کو مسیح کی ولادت کے دن کی یاد میں منائی جاتی ہے۔
 جسے ابتدا میں پوپ کی جانب سے روکا گیا مگر پھر آبائے کلیسا نے 325ء میں منعقدہ نیقیہ کونسل میں 24 دسمبر کی رات سے 25 دسمبر کی شام تک ولادت مسیح منانے کا دن قرار دے دیا۔
۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ولادت کا وقت نصف شب کو رہا ہوگا، پھر پوپ پائیس یازدہم نے کاتھولک کلیسیا میں سنہ 1921ء میں نصف شب کی ولادت کو باقاعدہ تسلیم کر لیا۔

کہا جاتا ہے کہ مسیحیت سے قبل بھی روم میں 25 دسمبر کو آفتاب پرستوں کا تہوار ہوا کرتا تھا چنانچہ ولادت مسیح کی حقیقی تاریخ کا علم نہ ہونے کی بنا پر آبائے کلیسیا نے یسوع مسیح کو "عہد جدید کا سورج" اور "دنیا کا نور" خیال کرتے ہوئے اس تہوار کو یوم ولادت تسلیم کر لیا۔ کرسمس کو "عشرہ کرسمس" کا ایک حصہ خیال کیا جاتا ہے، عشرہ کرسمس اس عرصے کو کہتے ہیں جس میں اس یادگار سے جڑے دیگر واقعات مثلاﹰ بشارت ولادت، ولادت یوحنا اصطباغی اور ختنہ مسیح وغیرہ پیش آئے۔ چنانچہ اس پورے عرصے میں گرجا گھروں میں ان تمام واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔جاری ہے۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :