
یونیورسٹیوں کی بقا کا راز ۔ قسط نمبر2
جمعرات 11 فروری 2021

حافظہ خنساء اکرم
جب معاشرے کی تشکیل میں ملحدانہ فکر غالب ہو اور اسلامی اندازِ زندگانی کی عمارت کو ڈھانا ہی مطلوب ہو۔ تو وہاں کا پراگندہ نظامِ تعلیم ہی اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
شومئی قسمت کہ اسلامی مملکت پاکستان کا نظام تعلیم سیکولزم(Secularism) مٹریلزم (Materialism)اور ہیڈونزم (Hedonism)کے ارکانِ ثلاثہ پر ایمان باالغیب لانے کا ثمر ہے ۔جو مغرب کے نیو کلونیالزم (Neo-colonialiom)کا ماحصل ہیں۔ ہمارے نام نہاد دانشور اور فیصلہ سازی پر فائز مقتدرہ ان باطل ازموں کو ہی انسانی فکر اور معاشرہ کی ترقی و ارتقاء کی بنیاد سمجھتے اور ہر فکر جو ان ازموں سے ٹکراتی ہو اسے قدامت پسندی اور روایت پرستی قرار دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
کسی ملک یا معاشرے کا نظامِ تعلیم صرف یہ نہیں بتاتا کہ آپ نے کیا نصاب وضع کیا ہے ، آپ کون سی کتابیں پڑھا رہے ہیں اور مختلف درجات میں طلبہ کے اختتامی امتحانات کیسے لیتے ہیں۔ بلکہ کچھ اور امور بھی نظامِ تعلیم کا بنیادی جزو ہیں ۔ یعنی آپ تعلیم کون سی زبان میں دیتے ہیں، آپ تعلیمی اداروں میں کس طرح کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں ترتیب دیتے ہیں، طلبہ و طالبات کی اخلاقی تربیت اور شخصیت کی نشوو نما کے لیے کیا پالیسی وضع کرتے ہیں، تعلیمی ادارے کے ماحول کو کس سانچے میں ڈھالتے ہیں، نیز آپ لڑکوں اور لڑکیوں کی صنفی ضروریات پوری کرنے کا کیا اہتمام کرتے ہیں۔
گویا مخلوط تعلیم یا (Co-Education)کوئی علیحدہ ایشو(Isolated Issue)نہیں ہے بلکہ نظام تعلیم کا اساسی مسئلہ ہے۔ جس کا فیصلہ اس ذہنیت کی روشنی میں ہوتا ہے جو ذہنیت فیصلہ سازی کے مقام پر فائزہے۔ بد قسمتی سے فیصلہ سازی کے مقام پر فائز محکوم ذہنیت کاغذی آزادی کے باوجود فکری آزادی سے محروم اور حمیتِ اسلامی سے تہی دامن ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کا نظامِ تعلیم سیکولر ہے جو اپنے لوگوں کو مسلمان نہیں بلکہ سیکولر نظریات سے مزین کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔
اور اسی جہد مسلسل کے عوض آج ہر عام و خاص کو بلاتفریق ان سیکولر اقدار کے ثمرات سے فیض یاب ہونے کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔
اور عوام کے فکر و نظر کے اردگرد مساوات کے نام پر بچھائی جانے والی دبیز چادر ان آقاؤں کو ان کے پُر فریب مقاصد میں کامیاب کرنے کے لیے سود مند ثابت ہورہی ہے۔
اگر ہم ماضی و حال کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے حقیقت حال کو تلاشنے کی کوشش کریں تو ان مضمراتِ ماہیت تک پہنچنے کا سفر بہت جلد اختتام پذیر ہو جاتا ہے اور عقدہ کھلتا ہے کہ کسی بھی قوم کے افکار کو پراگندہ کرنے کے لیے لازم ہے کہ اس کا نظام تعلیم اپنی مرضی کے مطابق طے کرو۔کیونکہ یہ نظام تعلیم ہی ہے جو اس قوم کی زبان،تہذیب و ثقافت اور روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تو جب تک طرزِ معاشرت نہیں بدلا جائے گا اس وقت تک من چاہے نتائج کی توقع رکھنا بے سود ہے۔
پھر یہ ہوا کہ ہماری نابغہ روزگار شخصیات نے ان جھوٹے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان تمام باتوں سے اتفاق کیا اور اپنے آنگن نئ تہذیب کے خیر مقدم کے لیے غیر آباد کرلئے تاکہ اس کو سکونت پذیر ہونے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اسی باہمی گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا جس نے اس ملک کی زبان اور اقدار کو ہی اپنے ملک میں بیگانہ کر دیا۔اور اس کی بنیاد میں موجود ان قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش میں یہاں پر ہر وہ نظام رائج کیا جس سے بچانے کے لیے اس وطن کی قیمت ادا کی گئی تھی ۔
جب دفتری زبان اغیار کی تھی تو تہذیب و ثقافت بھی اغیار کی ہی رائج ہونا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بچے آج
"الف" سے" *اللہ* "، الف' سے " *انسان* ", 'الف' سے *ایمان* " اور A" aa " *Allah"* کے تصور کو نہیں جانتے۔
وہ 'ب' سے " *بسم اللہ*, 'ب' سے " *بیت اللہ"* ، 'ب' سے " *بیت المقدس* "
'پ'سے " *پاکستان* " , 'پ' سے " *پرچمِ اسلام* "
'میم' سے *"محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم"* 'میم' سے" *مسجد* اور 'میم' سے " *مسلمان* "
کے رموز سے آشنا نہیں ہیں۔ اور فکر و تدبّر کا یہ سطحی سلیقہ بھی اغیار کا نئی نسلوں کے لیے مدون کردہ اسباق میں سے ایک تھا۔
تو ان حالات میں مخلوط نظام تعلیم کا رائج ہونا کوئ حادثاتی امر نہیں تھا۔بلکہ اس کی تیاری بہت پہلے سے شروع ہو چکی تھی۔
مخلوط تعلیم کی ابتدا امریکہ سے ۱۷۷۴ء میں ہوئی۔ انگلستان میں اس کا آغاز ۱۸۷۰ء میں ہوا اور ۱۹۰۲ء میں وہاں مخلوط تعلیم کے لیے قانون پاس کیا گیا۔ فرانس میں ۱۸۶۷ء میں اسے قانونی جواز دیا گیا ۔
اور پھر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت رفتہ رفتہ اس کو دنیا کے ممالک میں رائج کروایا گیا۔
اور یہ فطرت سے مقابلہ آرائ کا ہی ماحصل ہے کہ ایک صدی میں ہی اس ژولیدہ نظام کی تباہ کاریاں ہر سمت پھیل گئی تھیں۔اور کوئ ذی شعور اس طوفان ِ بدتمیزی کے آگے بن باندھنے کا عزم صمیم نہیں کرسکا۔
(Co-Education)کا تصور صرف اسلام سے ہی متصادم نہیں بلکہ تمام الہامی مذاہب ( بشمول عیسائیت و یہودیت آجائیں بہت تحریفات کے بعد بھی) مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کو ناپسندید کرتے ہیں۔اور نظریاتی و عملی دونوں پہلوؤں سے مخلوط نظام تعلیم کے مخالف ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 1938ء کو آسٹریلیا میں تعلیمی اداروں کی دو سٹریمز(streams) سرکاری اور چرچ کے تعلیمی اداروں سے منسوب تھیں۔ جن میں سے چرچ کے تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم پر پابندی عائد تھی اور یہی ادارے تعلیم کے لحاظ سے برتر اور اشرافیہ کی نگاہ میں سرکاری مخلوط اداروں کے مقابلے میں پسندیدہ ادارے تھے۔
اور چرچ کے ادارے ہی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ جاری ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظہ خنساء اکرم کے کالمز
-
کنارے سوکھ جاتے ہیں۔۔!
بدھ 14 اپریل 2021
-
یونیورسٹیوں کی بقا کا راز ۔ قسط نمبر2
جمعرات 11 فروری 2021
-
یونیورسٹیوں کی بقا کا راز ۔ قسط نمبر1
جمعہ 5 فروری 2021
-
مہمان کبوتر
جمعہ 8 جنوری 2021
-
ہے ازل سے ہی مٹی کی دشمن خود مٹی۔۔!!
منگل 5 جنوری 2021
-
کرسمس اور مسلمان ۔ آخری قسط
بدھ 30 دسمبر 2020
-
کرسمس اور مسلمان۔ قسط نمبر2
پیر 28 دسمبر 2020
-
کرسمس اور مسلمان۔ قسط نمبر1
ہفتہ 26 دسمبر 2020
حافظہ خنساء اکرم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.