یونیورسٹیوں کی بقا کا راز ۔ قسط نمبر1

جمعہ 5 فروری 2021

Hafiza Khansa Akram

حافظہ خنساء اکرم

" میری یہ تمام باتیں ہمیشہ کے لیے ذہن نشین کر لو ۔شاید دوبارہ اس موضوع پر گفت و شنید کا زندگی موقع دیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم تمہیں جہنم کی وادی میں بھیج رہے ہیں۔ ان آگ کے شعلوں سے اب تم نے خود بچ کر آنا ہے۔یہ فیصلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔"
" مگر سیدی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کا مفہوم ہے کہ اصل فقاہت یہی ہے کہ تم دو برائیوں میں سے کم برائی کا انتخاب کرو۔

تو ہم نے کم برائی کا انتخاب کیا ہے۔ اللہ رحیم ہمیں معاف فرما دے اور ہمارے لیے اس فیصلے کو بطریق احسن پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آسانیاں پیدا فرمائے۔"
اور ہاں یہ بھی یاد رکھنا کہ غیر محرم خواہ زہد و تقویٰ کے جس بھی مقام پر فائز ہو ۔اس کے لیے بلا جھجک دل و دماغ اور گھر کے دروازے کھولنے کی حماقت کبھی نہیں کرنی۔

(جاری ہے)

اور اگر کبھی بھی کسی ایسے مسئلہ کا شکار ہو جاؤ تو مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپانا اور کبھی بھی یہ مت سوچنا کہ تم یونیورسٹی میں تنہا ہو ۔

"
گاڑی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔مگر بھائی جان کے رخت سفر باندھتے وقت کے الوداعی کلمات کانوں میں گونج رہے تھے۔اور روح کو غیرت ایمانی و خاندانی حمیت کی آگ میں جھلسا رہے تھے۔
راستے میں قبرستان کی موجودگی مزید زخموں پر نمک چھڑکانے کے مترادف ثابت ہوئ اور بدن کا رواں رواں کانپتے ہوئے پکار اٹھا کہ بھائ جان! میں نے نہیں جانا ۔۔۔

۔ نہیں جانا مجھے یونیورسٹی ۔مجھے نہیں معلوم کہ میں جب اس قبر میں جاؤں گی تو اس وقت تک اپنی عفت ، اپنا ایمان سنبھال پاؤں گی یا نہیں۔.....!
اگر میری قبر ہی مجھے کھا گئی تو؟
میرے پاس تو کوئ نیکیوں کا ڈھیر بھی نہیں ہے۔اور اگر اس رہِ سفر میں وہ حسنات کا معمولی سا زادِ راہ بھی کھو گیا تو میرا کیا بنے گا؟؟
 آنسو بہاتے ہوئے شعور میں گونجتے بھائی جان کے صرف یہی الفاظ سمجھ سکی کہ" پگلی! تیرے بھائی جان نے اگر یہ فیصلہ کیا ہے تو اس کے پاس اس کا جواب بھی تو موجود ہوگا۔

مگر میری خواہش ہے کہ تم اس رمز تک خود پہنچنے کی کوشش کرنا۔ اور اللہ عزوجل سے اپنا تعلق مضبوط رکھنا ۔ یہ بات ذہن نشین کر لو کہ لاکھ حجت پیش کرنے کے بعد بھی یہ ایک ایسی عظیم برائی ہے جو ہمارے حصے میں آئی ہے۔
اب دنیا میں اس برائی کا انجام اچھائی میں کیسے نکالا؟ یہ جواب تمہیں کل روزِ قیامت اللہ کو دینا ہوگا۔اور اس کی تیاری آج سے ہی شروع کرنا ہوگی۔

"
اس طرح کے بہت سے فقروں کی باز گشت میں یونیورسٹی میں وارد پہلا قدم کیچڑ میں غلطی سے رکھے گئےاس نقشِ پا کے مترادف لگا جو بخیر باہر نکل آنے کے باوجود پاپوش کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر جگہ پڑاؤ ڈالنے پر اس قدم کا دلدل میں کچھ ساعت پناہ گزین ہونے کا ثبوت ضرور پیش کرے اور گردونواح میں عافیت سے نکل آنے کی نوید سنانے کی بجائے غلاظت میں پھنس جانے کا راگ الاپنے والا ثابت ہو۔


یہ معاملہ اب فہم سے بالاتر تھا کہ آغازِ سفر میں موجود اس گوہرِ نایاب کی اختتام سفر میں بھی ملکہ بن سکوں گی یا پھر مغرب کی جانب سے آتی اس بادِ صرصر کے دوش پر سوار ہو کر کسی ریگستان کی تلچھٹ کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلوں گی۔ انہی پریشان کن خیالات کے بہاؤ میں بہتے ہوئے زبان سے یہ کلماتِ مبارکہ جاری ہوگئے۔
 *رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَ جَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا* .
 "اے میرے رب مجھے سچی طرح داخل کر اور سچی طرح باہر لے جا اور مجھے اپنی طرف سے مددگار غلبہ دے۔

"
 *رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ* ۔
"اے میرے رب !مجھے حکمت عطا کر اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں ۔"
 *اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہْ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہْ* ۔
"اے اللہ! ہمیں حق کو واضح‌ دکھا اور اس کی پیروی کی توفیق بخش اور اے اللہ ہمیں باطل بھی واضح دکھادے اور اس سے بچنے اور اجتناب کرنے کی توفیق دے۔

"
ان دعاؤں سے طبیعت میں طمانیت کا احساس اجاگر ہوا اور پھر اپنے ماحول سے شناسائی حاصل کرنے کی اک نئے عزم سے سعی ِمسلسل شروع کر دی۔
اللہ ذوالجلال والاکرام نے اس دنیائے رنگ و بو میں آدم علیہ السلام کو بھیجنے سے پہلے سب سے پہلے اس کو علم کا خزینہ عطا فرمایا۔ جنت کی بشارت اور اس میں پناہ گزینی کا موقع بعد میں نواز ا۔
یہ علم کا تحفہ ہی تھا جس نے آدم علیہ السلام کے سامنے فرشتوں کو سر نگوں کردیا۔


یہ علم کا ہدیہ ہی تھا جس کے حصول کے بعد انسان اشرف المخلوقات قرار ٹھہرا۔
یہ وحی الٰہی کی صورت میں علم کا تاج ہی تھا جس کو پہن کر نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شعراءِ عرب کو لاجواب کر دیا۔
یہ علم کا جوہر ہی تھا جس کو پانے کے بعد مسلمان قیصر و کسریٰ اور قرطبہ و غرناطہ کے والی بن گئے۔
یہ علم کا تختِ شاہی ہی تھا کہ جس پر قابض یورپ کے سامنے پھر قرون وسطیٰ کے مسلمان ہی سوالی بن گئے۔


 مزید یہ ہوا کہ چاند ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے آج کے نام نہاد غیور مسلمان یورپ کی تہذیب کے رکھوالی بن گئے۔
کل تک اسلامی عروج و کمال پر فائز رہنے والے آج جب بہت تیزی سے تنزلی کی آخری سطح پر پہنچ رہے ہوں اور اسی کو امت مسلمہ کی اصل قدر و منزلت سے تعبیر کرنے لگ جائیں توحقیقت حال کا نسلِ نو کی عقول تک پہنچنے کا سفر ان کے گرد کسے شکنجوں کے باعث بہت دشواریاں پیدا کرتا ہے۔


جی ہاں۔۔!!
کسی بھی معاشرے کے عروج و زوال میں کلیدی کردار ادا کرنے والا وہاں پر رائج کردہ نظام تعلیم ہوتا ہے۔ جو اپنی نسلوں کی تعلیم اور کردار کی تعمیر جس نہج پر کرتا ہے۔ اس کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جن سے کنارہ کش ہونا اس معاشرے کے کسی بھی فرد کے لیے ناممکن ہوتا ہے ۔حتیٰ کہ مسجد کے اندر مستعد امام سے لے کر بازار میں موجود خوانچہ فروش اور کسی وڈیرے کے پاس میسر دیہاڑی دار مزدور طبقہ بھی اس عفریت کی لپیٹ میں آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔


کیونکہ ہم لوگ سات دہائیوں کے بعد بھی اپنی زنجیرِ غلامی کاٹنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرسکے۔
اور یہ نظام تعلیم اسی ذہنی غلامی کا شاخسانہ ہے جو آج ہم پر مسلط ہے۔
اغیار پر ہرزہ سرائی کرنے سے پہلے ہمیں اپنے دامنِ دل میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ کن تحفظات نے ہمیں اپنی نسلوں کے کرداروں کا قاتل بنادیا اور اس فیصلے کے خلاف ہمارے ضمیر نے کبھی کوئی صدا بلند نہ کی؟
مسئلہ مخلوط نظام تعلیم شعبہ تعلیم میں مغربی استعماری اثرات کی پیداوار بہت سے مسائل میں سے ایک ہے۔

تعلیم ایک سماجی عمل ہے اور سماجی اقدار تعلیم کے نظریے اور تعلیمی عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ذہنًا اور عملاً سیکولر اقدار ، سیکولر نظریات اور سیکولر افعال پر عمل پیرا ہیں۔ اسی سبب کی وجہ سے یہاں پر موجود اکثریت نفوس عملاً سیکولر ہیں۔ کیونکہ اُن کے نزدیک دین اور دنیا کا خانہ الگ الگ ہے۔
حکومت جو اجتماعیت کا مظہر ہوتی ہے۔

وہ دین کی مداخلت پسند نہیں کرتی اور اہل مسجد و مدرسہ جو دین اسلام کی نمائندگی اور اظہار کا دعوٰی کرتے ہیں۔ وہ حکومت کی مداخلت کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔اور یہی نتیجہ ہے مغربی استعمار کے اَن مٹ اثرات کا جو ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
 سگمنڈ فرائڈاور دیگر مغربی ماہرین نے نفسیات انسانی کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا کہ عام انسان کو یقین ہونے لگا کہ اس کی فلاح کا سامان یورپ کے خود ساختہ اور بے سروسراپا فلسفے اور نظریات میں ہی موجود ہے۔

پھر وہ ان ہی افکارات میں اپنی سیاسی،معاشی،معاشرتی زندگی کی بقاء تلاش کرنے لگا اور علمی، فکری اور عملی طور پر خود کو ان کے رنگ میں رنگنے کے لیے جدّو جہد کرنے لگا۔اسی جہت کے صلے میں آج تصورِ انسان اور تصورِ حیات کا بنیادی فرق تعلیم کے ہر شعبہ میں نمایاں ہوگیا۔ پاکستانی فیصلہ سازوں کا اصل مسئلہ ان کی وہ فکری اور ذہنی مرعوبیت ہے۔ جس کی بنا پر وہ لادینی مغربی تصورِ علم اور تصور تعلیم کے اتنا عادی ہو چکے ہیں کہ وہ ان کے فکری سانچوں سے نکلنا بھی چاہیں تو باآسانی نہیں نکل سکتے ۔ کیونکہ وہ اسے ہی ترقی کی معراج سمجھتے ہیں۔
اور یہ حقیقت اب طشتِ از بام ہے کہ  
 *"محکومانہ ذہنیت، محکومیت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے"۔*
جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :