کرسمس اور مسلمان۔ قسط نمبر2

پیر 28 دسمبر 2020

Hafiza Khansa Akram

حافظہ خنساء اکرم

اب اگر کرسمس کی حقیقت جاننے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں تو بہت سے ایسے انکشافات سامنے آتے ہیں کہ انسان اس تہوار کو منانے والوں سے کچھ کہنے کے الفاظ موجود نہیں پاتا۔
لیکن خوش قسمتی سے عیسائیوں میں کچھ حقیقت پسند مکاتبِ فکر تاحال موجود ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ25 دسمبر حضرت مسیحؑ کی و لادت کا دن نہیں بلکہ دیگر بت پرست اقوام سے لی گئی بدعت ہے۔

فقط یہی نہیں بلکہ تاریخِ کلیسا میں کرسمس کی تاریخ کبھی ایک سی نہیں رہی ،کیونکہ جنابِ عیسیٰ ؑ کا یومِ پیدائش کسی بھی ذریعے سے قطعیت سے معلوم نہیں۔
 عیسیٰ کا دور ِ حیات اور آپ کے بعد آپ کے حواری برسوں تک کسمپرسی کی حالت میں رہے۔ رومیوں اور یہودیوں کے مظالم سے چھپتے پھرتے تھے اور عیسائیت کو عام ہونے میں ایک صدی لگی ۔

(جاری ہے)

رومن سلطنت کے عیسائیت کو قبول کرنے سے قبل اس خطے میں رومی کیلنڈر رائج تھا۔

سلطنت ِروما کے قیام سے ہی اس کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے۔ چھٹی صدی عیسوی کے راہب ڈائیونیزیوس(Dionysius Exiguus 470-544 AD)کا کہنا ہے کہ ولادتِ مسیح رومن کیلنڈر کی ابتدا کے 753 سال بعد ہوئی۔سن عیسوی کا قیام صدیوں بعد رومن کلیسا نے کیا ۔البتہ میلاد المسیح کو بحیثیتِ عید منانے کا رواج حضرت عیسیٰ اور آپ کے حواریوں کے دور سے کافی عرصہ بعد شروع ہوا ۔

دوسری صدی میں پاپاے اعظم ٹیلیس فورس نے اس بدعت کو باقاعدہ طور پر منانے کا اعلان کیا ،لیکن اس وقت کرسمس کی کوئی متعین تاریخ نہ تھی۔اسکندریہ مصرمیں اسے20مئی کو منایا جاتا تھا۔اس کے بعد 19،20اور21 اپریل کو منایا جانے لگا ۔کچھ خطے اسے مارچ میں بھی مناتے تھے۔
انسائیکلوپیڈیا Britannica میں کرسمس ڈے آرٹیکل کے مطابق 525ء میں سیتھیا کے راہب ڈائیونیزیوس(Dionysius Exiguus 470-544 AD)جو کہ ایک پادری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر کیلنڈر نگار بھی تھا،اس نے اپنے اندازے کے مطابق حضرت مسیح کی تاریخِ ولادت 25 دسمبر مقرر کی ہے ۔

''
یہ بات درست ہے کہ ڈائیونیزیوس ایک مشہور تقویم نگار تھا،اس نےAnno Domini یعنی عیسوی کیلنڈر بھی 525ء میں متعارف کروایا تھامگر انسائیکلوپیڈیا ویکی پیڈیا کے مقالہ نگار کے مطابق جدید تحقیق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس مشہور تقویم نگارنے کبھی یہ دعو یٰ نہیں کیا کہ حضرت مسیح کی تاریخِ ولادت 25 دسمبر ہے۔
بازنطینی بادشاہ کانسٹنٹائن(Constantine the Great 272-373AD)نے اس تاریخ کو عالمی طور پر حضرت عیسیٰ کی ولادت کا دن مقرر کیا ۔


چوتھی صدی عیسوی سے اب تک کرسمس کا تہوار دنیا بھر میں 25 دسمبر کو ہی منایا جا رہا ہے۔لیکن عیسائی فرقہ آرتھوڈکس جو گریگوری کیلنڈر کو ہی معتبر مانتا ہے،وہ کرسمس 7 جنوری کو مناتے ہیں اور آج بھی ایسے خطے جہاں آرتھوڈکس کی اکثریت ہے، وہاں کرسمس7 جنوری کو ہی منایا جاتا ہے جن میں روس ،آرمینیا ،مشرقی تیمور ،فلپائن ،شا م اور بھارت کی ریاست کیرالہ بھی شامل ہیں۔

جبکہ بعض خطے ایسے بھی ہیں جہاں کے عیسائی 6 جنوری اور 18 جنوری کو کرسمس مناتے ہیں ۔
جبکہ بعض مؤخرین اپنے ثبوتوں کے ساتھ اس مقام پر کھڑے ہیں کہاگر مسیح کی تبلیغ تب شروع ہوئی جب آپ تیس سال کی عمر کے تھے اور ساڑھے تین سال میں عید فصیح کے موقع پر آپ کی وفات پر اختتام پذیر ہوئی تو محتاط طریقے سے ماضی میں واپس لوٹتے ہوئے 25؍دسمبر کی بجائے ہم ستمبر یا اکتوبر کے مہینوں میں پہنچتے ہیں ۔

''
انجیل لوقا کی آیات بھی یہی رائے پیش کرتی ہیں۔اسی طرح
متروک اناجیل میں سے ایک انجیلِ متّی بھی ہے جو در اصل عبرانی میں لکھی گئی تھی۔بعد میں سینٹ جیروم نے اسے لاطینی زبان میں منتقل کر دیا۔ یہ انجیل سیدہ مریم علیہا السلام کی پیدائش سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لڑکپن تک کے واقعات کو قدرے تفصیل سے بیان کرتی ہے ۔اس میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے موسم کے متعلق بڑی واضح دلیل ملتی ہے کہ یہ سردی کا موسم نہیں بلکہ گرمی کا موسم تھا ۔

اس انجیل کے مطابق ''سیدنا مسیح کی ولادت سے چند دن بعد سیدہ مریم علیہا السلام اپنے خاوند یوسف نجّار کے ہمراہ بیتِ لحم سے مصر کو اس لیے روانہ ہوئیں کہ کہیں ہیرودیس بادشاہ ننھے عیسیٰ کو قتل نہ کر دے ۔اس سفر کے تیسرے دن جب وہ ایک صحرا سے گذر رہے تھے تو صحرا کی تپش اور سورج کی چلچلاتی دھوپ نے اُنہیں نڈھال کر دیا۔وہ اور اُن کے جانور پیاسے بھی تھے۔ وہ ایک کھجور کے درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے رکے ۔اور وہ درخت پھل سے لدا ہواتھا۔''
اور اب ان تمام دلائل و قرائن سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی ولادت انجیل کے مطابق سردیوں کے موسم کی بجائے گرمیوں میں ہوئی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :