پختونوں کا میڈیائی مزاج

بدھ 9 جنوری 2019

 Hammad Hassan

حماد حسن

پختون قوم ہمیشہ فطری طور پر میڈیا کے بہت قریب ہوتا ہے کیونکہ حجرہ یہاں کی سماجی زندگی کا نہ صرف اہم ترین حصّہ رہا بلکہ یہاں کی اجتماعی دانش بھی اسی مرکز سے پھوٹتی رہی ۔حُجرے کی یہی مرکزیت ہی تھی جس نے پختونوں کے مزاج میں با خبری اور خبر تک رسائی کا رنگ بھرا ۔
آگے چل کر یہی مزاج جدید دنیا اور میڈیائی ارتقاء سے ہم آہنگ ہونے لگا ۔

ہماری نسل سے ذرا اُدھر ریڈیو نہ صرف حجرے کی سب سے اونچی طاق پر پہنچ گیا تھا بلکہ اسی ریڈیو کے سامنے کثرت کے ساتھ لوگ (خصوصًا بزرگ ) بھی نظر آنے لگے تھے اور یہی وہ وقت تھا جب خبریت کا مزاج رکھنے والی قوم کے سامنے خبر کا دائرہ پھیلنے لگا ۔اور پھر بی بی سی تو کیا مارک ٹیلی (بی بی سی کا نمائندہ) تک ہماری سماجی زندگی میں ایسے رچ بس گئے کہ حُجروں سے کھیتوں تک ایک سہولت کے ساتھ ان کا ذکر ہوتا رہا ۔

(جاری ہے)

ایک گہری شناسائی کے احساس کے ساتھ لیکن حیرت انگیز طور پر عوامی سطح پر نا صرف خبر کی اہمیت اور اس تک رسائی کا شعور حاصل تھا بلکہ خواندگی کی کم شرح ہونے کے باوجود خبر کی صداقت تک پہنچ اور تجزیئے کو ایک کمال بھی حاصل تھا جو ہمیں یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ پختون قوم جبّلی طور پر ایک میڈیا پسند قوم ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا منظر پر اُبھرے تو پختون خطّے میں اسے حسب توقع ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔

آپ اندازہ لگا لیں کہ پشاور سے انگریزی اخبار خیبر میل کا اجراء 1932 میں ہوا لیکن 80کے عشرے تک اس اخبار کے سنجیدہ قارئین اس کے ساتھ جڑے رہے اسی طرح اردو اخبارات انجام ،بانگ حرم اور کوہستان سمیت بہت سے اخباروں نے نہ صرف صحافت کا اعلٰی معیار برقرار رکھا بلکہ کسی بھی مرحلے پر ان اخبارات نے کھبی قارئین کی تشنگی محسوس نہیں کی یہی مزاج ٹیلی وژن کے حوالے سے بھی رہایہ  70 اور 80 کے عشرے ہی تھے یعنی ٹیلی وژن کے ابتدائی زمانے میں ہی اسے نہ صرف عمومی مقبولیت مل گئی تھی بلکہ خبرنامہ سے پہلے تمام کام سمیٹ لئے جاتے تاکہ ایک یکسوئی اور انہماک کے ساتھ ایک ایک خبر کو بغور سنا اور دیکھا جائے گویا خبر کو دیکھنے کے نئے ذائقے نے قبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے لیکن میڈیائی رومانس سے الگ ہوکر بھی ہم دیکھیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہ وہی دیانتدار اور پڑھے لکھے اور حددرجہ محنتی لوگ تھے جنھوں نے پرنٹ میڈیا کو اپنے اپنے ابتدائی زمانے میں تھاما اور اپنے شب وروز کی محنت اور بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر میڈیا کو اعتماد اور قبولیت کا بھاؤفراہم کیا ۔

شیخ ثنااللہ سے لالہ امیر صدیقی اور قلندر مومند سے فارغ بخاری تک بہت سے نام۔
 کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پختون خطّے میں ہمیشہ میڈیا کے تمام ذرائع کو کھلے ڈھلے انداز میں قبول کیا گیا ۔حتٰی کہ جدید ترین سوشل میڈیا کو بھی لیکن ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ میڈیا کی اس ابتدائی اُٹھان میں جن لوگوں نے کردار ادا کیا تھا ان جیسے زمانہ حال میں بہت کم تعداد میں دستیاب ہیں اور تو اور اب تو دن دھاڑے اور سر عام نہ صرف لین دین کا بازار گرم کیا جاتا ہے بلکہ اس مکروہ عمل کو بعض لوگ ایک آرٹ کے طور پر بھی پیش کرنے سے نہیں چوکتے لیکن قابل اطمینان بات یہ ہے کہ قارئین اس طرح کے جھانسوں میں نہیں آتے جیسے کہ میں نے کہا کہ حُجرے کی طاق پر ریڈیو کا بسیرا تھا اور خبر کی صداقت کو جانچنے کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہ تھا تو تب بھی پختونوں کا مزاج فطری طور پر خبر کی تہہ تک پہنچنے اور تجزیئے کی طاقتور قوت سے مالا مال تھا ۔

اس لئیے موجودہ دور میں تو یہ تصور بھی ایک حماقت کے علاوہ کچھ نہیں کہ قصیدہ گوئی یا بہتان طرازی سے رائے عامہ کو اپنی مرضی کی ڈگر پر ڈالا جا سکے گا گو کہ اس حوالے سے صورتحال کوئی اتنا آئیڈیل بھی نہیں لیکن دن بدن بیدار ہوتی رائے عامہ اور جدید میڈیا خصوصًا سوشل میڈیا تک عام آدمی کی رسائی زرد صحافت کو اکھاڑنے میں حیرت انگیز پیش رفت کر رہی ہے ۔
اطمینان کی بات ہے کہ خیبر پختونخواہ کے عوام باالخصوص نوجوان طبقہ کسی طور دوسروں سے پیچھے نظر نہیں آتے ،اور یہ وہ مثبت انڈیکیشنز ہیں جو نہ صرف کاسہ لیس صحافت کے بخیئے ادھیڑتی اور سخت گرفت کرتی آگے بڑھ رہی ہے بلکہ چھپے یا چھپائے گئے اصل حقائق کو سامنے بھی لا رہی ہے،اپنے اٹھتے ہوئے شعور اور دلیر بیداری کے ساتھ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :