
فاٹا انضمام یا فاٹا انتشار
بدھ 24 اپریل 2019

حماد حسن
ڈیڑھ سو سالہ نظام جو وھاں کی سماجی زندگی اور اجتماعی خدوخال کی تشکیل کرتا اور آگے بڑھاتا رہا اسے اکھاڑنے سے پہلے کیا ضروری نہیں تھا کہ اگلے مرحلے کے لئیے تیاری تمام تر جزئیات کو مدنظر رکھ کرکی جاتی ،لیکن ایسے تکلفات میں پڑنا چونکہ ھمارا قومی مزاج ہی نہیں اس لئیے حسبِ توقع اندھیرے میں چھلانگ لگادی اور فاٹا انضمام کا اعلان بغیر کسی تیاری کے کر لیا گیا ۔
اور اب “بھگتو” والی کیفیت سے دوچار ہیں ۔
اکتسویں ترمیم پارلیمنٹ نے منظور کر لی اور فاٹا میں پرانا نظام لپیٹ دیا گیا ظاھر ہے ھر صاحب عقل اور باشعور شخص نے اس اقدام کی تائید اور ستائش کی کیونکہ ایف سی آر جیسا ظالمانہ قانون تو اس مھذب دور اور جدید دنیا میں کسی نیم وحشی اور غیر انسانی معاشرے میں بھی شاید جگہ نہ پا سکے ۔
(جاری ہے)
اس حوالے سے سپریم کورٹ نے فاٹا رولز اور جرگہ سسٹم کو متوازی عدالتیں اور کینگرو کورٹس تک کہا تھا اور بجا کہا تھا۔
چاھئے تو یہ تھا کہ پرانے نظام کی رُخصتی اور نئے نظام کی آمد سے بیشتر طویل مشاورت اور “ brain storming “ کی جاتی وھاں کی تاریخی اور ثقافتی پس ِمنظر ،نفسیاتی خدوخال ،سماجی زندگی ،اور انتظامی معاملات کا عرق ریزی اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ اور مشاھدہ کیا جاتا اور نئے نظام کو در پیش چیلنجز اور رکاوٹوں سے نمٹنے کے لئے مربوط پالیسی وضع کی جاتی لیکن سچ تو یہ ہے کہ سیاسی پوائینٹ سکورنگ کی غرض سے ایک سراسیمگی اور احمقانہ جلد بازی میں یہ سب کچھ کیا گیا ۔
اس وقت فاٹا میں نئے نظام کو خوفناک چیلنجز درپیش ہیں مثلاًخاصہ دار اور لیویز کی جگہ پولیس لینے لگی ہے لیکن کیا پولیس کو فاٹا کی طرز زندگی کے بارے میں وہ معلومات اور تجربہ حاصل ہے جس سے اول الذکر ادارے ھر حوالے سے گہری شناسائی رکھتے تھے ۔
کیا اٹھائیس ھزارخاصہ دار اور لیوی فورسز کو نئے نظام کے لئے ٹرئینگ دی گئی ؟
جواب ہے نہیں ۔
فاٹا میں عام جرائم مثلاً چوری ،ڈکیتی اور قتل ھمیشہ سے نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ وھاں جرگہ سسٹم بہت مربوط اور منظم تھا اور کسی علاقے میں اس طرح کی واردات ہونے کی صورت میں متعلقہ علاقے میں رھائش پزیر قبیلے کو اجتماعی طور پر جرمانہ دینا پڑتا اس لئے یہ جرائم قومی وحدت کی وجہ سے پروان نہ چڑھ سکے ،بلکہ فاٹا میں جرائم کی نوعیت مختلف ہے اور یہ جرائم عمومًا بین الاقوامی نوعیت کے ہیں ۔
جن میں اسلحہ ، منشیات ،کرنسی اور نوادرات کی سمگلنگ پوست کی کاشت منی لانڈرنگ ، انسانی سمگلنگ ،فنانسنگ ٹیررازم (مالیاتی دھشت گردی ) اور کسٹم چوری وغیرہ شامل ہیں ،لیکن اھم سوال یہ ہے کہ کیا پولیس کو فاٹا میں داخل کرانے سے پہلے ان جرائم سے نمٹنے اور قابو کرنے کے لئے جدید تربیت اور ٹریننگ دی گئی ؟
سو صورتحال یہ ہے کہ پولیس چوری چکاری کی روایتی وارداتوں کا سراغ لگانے کی مھارت بمشکل رکھتی ہے جبکہ اب انھیں بین الاقوامی جرائم سے نبرد آزما ہونا ہے ۔
وہ بھی بغیرکسی تیاری کے
اینٹی نارکوٹکس فورس اور ایف آئی اے یقینًا اس حوالے سے نسبتًا زیادہ تجربے کے حامل ادارے ہیں لیکن دیکھنا ہوگا کہ نئے منظرنامے میں ان اداروں کی capacity کیا ہے اور کیا وہ رو بہ عمل ہوسکتی ہے ۔
طرفہ تماشہ یہ کہ ابھی تک جن پولیس افسروں کو فاٹا میں تعینات کیاگیا ہے ان میں سے بعض پر سنگین مالی بدعنوانیوں کے الزامات ہیں حتٰی کہ کچھ تو پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت میں کرپشن الزامات پر نوکری سے برطرف بھی کئے گئے تھے لیکن عدالتوں کے ذریعے بحال ہو کر واپس آئے ۔سنا ھے پنجاب سے ملحقہ خیبر پختونخواہ کے ایک ضلع میں تعینات ایک انتھائی کرپٹ ڈی پی او ( جو اچھی کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ تک کا سودا کرنے کی مھارت رکھتا ھے) ایک اھم قبائلی علاقے میں تعیناتی کے لئے بریف کیس لئے پھر رھا ھے لیکن تا حال بات نہیں بن رھی ھے
سوچا جائے کہ اگر نئے اضلاع میں بھی اس قماش کے لوگ آ گئے تو جرائم کی شرح میں خوفناک اضافہ نہیں ھو گا؟
کیا یہ تمام عوامل اس طرف اشارہ نہیں کر رھے ہیں کہ نئے اضلاع میں خدانخواستہ نئے پولیس نظام کوایک خوفناک ناکامی کا اندیشہ ہے ۔
اسی طرح فاٹا میں زمین کی ملکیت عمومًا اجتماعی طور پر قوم کے پاس ہوتی یعنی نظام شاملات سے ملتی جلتی اور یہاں کوئی بندوبستی نظام تھا ہی نہیں اس لئے ان جائدادوں کے فیصلے اقوام کے مشترکہ جرگے کے ذریعے ہوتے رھے لیکن نئے نظام میں پٹواری بھی اپنے بستے سمت داخل ہو رھا ہے، اور پھر اس نظام کی خباثتوں سے نا بلد سماج اس کی لپیٹ میں آجائیگا ظاھر ہے بندوبستی سسٹم لاگو ہوگا تو بات قوم سے افراد کی طرف منتقل ہو جائیگی ،لیکن اھم سوال یہ ہے کہ زمین کی ملکیت اور تقسیم کے حوالے سے کیا کوئی مربوط پالیسی اور نظام وضع کیا گیا ہے ؟
جو اب یہاں بھی نہیں میں ہے۔
سو کہنا یہی ھے کہ ایف سی آر جیسے جلاد صفت قانون سے چھٹکارہ اور بند و بستی علاقے میں فاٹا کی شمولیت یقینا پارلیمنٹ کا ایک قابل ستائش اعلان تھا لیکن اس اعلان کے عقب سے ابھی صرف خوف اور اندیشوں کی خون آشام بلائیں ھی جھانک رھی ہیں.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حماد حسن کے کالمز
-
پشاور کے چند باصلاحیت نوجوان صحافی
ہفتہ 5 ستمبر 2020
-
ایک امید بھری ملاقات
بدھ 29 مئی 2019
-
فاٹا انضمام یا فاٹا انتشار
بدھ 24 اپریل 2019
-
بدلتے ھوئے حالات کا بھاؤ اور قومی توازن
منگل 16 اپریل 2019
-
عمران خان کا اجنبی سیاسی تہذیب
بدھ 10 اپریل 2019
-
ریاست قانون اور ادارے کہاں ہیں
پیر 8 اپریل 2019
-
کیا عمران خان واقعی سادہ ہیں
پیر 1 اپریل 2019
-
اْدھڑتا ہوا نیا پاکستان
ہفتہ 30 مارچ 2019
حماد حسن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.