ایک امید بھری ملاقات

بدھ 29 مئی 2019

 Hammad Hassan

حماد حسن

یہ ایک مستطیل کمرہ ہے نفاست سے سجا ہوا ،جس کے کھڑکیوں کے باہر شیشے کے اس پار ہرے ہرے لان دور تک پھیلے ہوئے ہیں ۔کمرے کے غربی حصّے میں ترتیب کے ساتھ چند صوفے رکھے ہیں ۔
ابھی ابھی دو سینئیر افسران مجھے لے کر اس کمرے میں داخل ہوئے اور میرا میزبان ( بوجوہ نام یا عھدہ لکھنے سے گریز کر رھا ھوں)ایک گرم جوشی کے ساتھ میری جانب لپکا تو مجھ پر ایک حیرت کا دروازہ کھول دیا اوراگلے سوا گھنٹے تک وہ مسلسل یہ “دروازہ “ کھولتا چلا گیا ۔

توقع سے کہیں زیادہ نوجوان خوش شکل اور گرم جوش تو وہ ھے ھی لیکن جب وہ ہمیں لے کر کمرے کی نشست گاہ کی جانب بڑھا اور ہم اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تو میں نے پشتو زبان میں گفتگو کا آغاز کیا تو ایک شائستہ لہجے کے ساتھ اس نے کہا کہ اس نشست میں موجود ایک ساتھی پشتو نہیں جانتا.اس لئے میں نے فورًا معذرت کرتے ہوئے حرف و لفظ اُردواور انگریزی کی سمت موڑ دئیے ۔

(جاری ہے)


ہمارا موضوع وزیرستان وہاں کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور فوج کے ساتھ پی ٹی ایم کی بڑھتی ہوئی کشیدگی تھی حیرت انگیزطور پر ہم سب کی پریشانی اور دکھ ایک جیسے تھے کہ زخمی ایک بھی غیر نہیں اور گرتی ہوئی لاش ایک بھی پرائی نہیں ،افسردگی اور دکھ میں ڈوبے ہوئے ماحول میں اس نے ایک سہولت کے ساتھ مجھے کھل کر بولنے بلکہ دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع دیا،میری آواز کئی بار معمول سے بلند بھی ہوئی اور لہجہ تلخ بھی ہوا ۔

شکوہ بھی زبان پر آیا اور تنقید سے بھی گریز نہیں کیا لیکن مجال ہے کہ ایک طاقتور عہدے پر ہوتے ہوئے بھی اس شخص کے چہرے پر ناگواری یا بیزاری کی ہلکی سی لکیر بھی اُبھری ہو حتٰی کہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے اس کے ساتھی ایک اور سینئیر عہدیدار کی توجہ اور انہماک میں ذرا بھر کمی آئی ہو میں نے کم از کم پندرہ بیس منٹ تک ایک طویل تقریر جھاڑ دی ۔
کچھ نکتے اور کڑے آپس میں ملائے کچھ اہم معاملات کی طرف توجہ دلائی اور کچھ اہم تجاویز بھی سامنے رکھ دیں ان لوگوں پر بھی جھپٹا جو اپنے اپنے ایجنڈے کی خاطر آگ کو پھونکیں مار رھے ہیں ۔


اس کمرے میں ہم کل پانچ لوگ ایک دائرے کی شکل میں بیٹھے تھے جس میں ہم دونوں کے علاوہ اس کے دو اہم لیکن حد درجہ سنجیدہ اور ذھین افسروں کے ساتھ نوجوان احمد بھی تھا لیکن لیکن توجہ اور سنجیدگی ایسی کہ میں نے ایک سہولت کے ساتھ اپنی بات واضح کردی اور پھر ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔بات شروع کرنے سے پہلے میزبان نے سلیقے کے ساتھ ایک تمہید باندھی جس سے ان کا خلوص اور دکھ بیہم ٹپکتے رہے ۔


ایک گہرے دکھ کے ساتھ وہ پوچھتے رہے کہ کون بد بخت اس پرخوش ہوتا رہیگا کہ وہ اپنے ہم وطنوں ،اپنے بھائیوں اور اپنے عزیزوں کے ساتھ ٹھکراتا رہے یا اپنی ماں جیسی زمین کو خون آلود کرتا رہے لیکن دکھ کے ساتھ اس نے شکوہ کیا کہ کونسی گالی ہےجو ہمیں نہیں دی گئی کونسا بہتان ہے جو ہم پر نہیں لگایا گیا اور کونسا ظلم ہے جو ہم پر نہیں توڑا گیا ۔


ظلم ؟
میں نےگہری حیرت کے ساتھ ان کی بات کاٹ دی ۔
جی ہاں ظلم ابھی لوگوں کو معلوم بھی نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی ہم صبر اور برداشت کے راستے پر آگے کی طرف بڑھ رھے ہیں خاموشی اور خلوص کے ساتھ اپنے دکھوں کا اظھار کئے بغیر.
 میں نےبات بدل دی اور ڈوگ مچہ مداخیل گاؤں میں پیش آئے ،واقعے کے حوالے سے سوال پوچھا تو بتایا گیا کہ فوج پر حملے کے بعد مقامی ملک اور مشران کی مدد سے دو مشکوک افراد گرفتار ہوئے ،ایک کوتفتیش کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ زربت اللّہ نامی ایک شخص کو مزید تفتیش کے لئیے روک لیا گیا اور یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے کہ جب تک انویسٹی گیشن مکمل نہ ہو رہائی نہیں ہوتی لیکن بعض لوگ ا سے زبردستی چھڑانا چاہتے تھے لیکن مسئلہ یہ ھے کہ ھم یہ سب کچھ کن کے لئے کرھے ہیں .حال ھی میں آئے واقعے کے بارے میں ان کا نقطۂ نظرمتضاد سمت میں تھا لیکن اپنے دلائل کے ساتھ.
لیزان کمیٹیوں کے حوالے سے بتایا گیا کہ اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے تو تمام مسائل فوری طور پر اور مقامی سطح پر حل کئیے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کمیٹیوں میں علماء ،بزنس مین ، یوتھ طلباء اور سیاسی کارکنوں سمیت مقامی فوجی یونٹوں کے افسران بھی شامل ہیں جبکہ سول انتظامیہ بھی مددگار ہے ۔

حیات آباد فیز سیون میں دہشت گردی کے حوالے سے سوال پر بتایا گیا کہ سب کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہورہی تھی اور ھم سب ایک دوسرے کے ساتھ قریبی رابطے میں تھےکہ یہ واقعہ ہوا ( کسی کو کیا پتہ کہ یہ منصوبہ کامیاب ھوتا تو تباھی کی نوعیت کیا ھوتی. آپریشن اتنی ذمہ داری اور حساسیت کا متقاضی تھا کہ میں نے بذات خود مسلسل نگرانی کی ) لیکن اس واقعے کے دوسرے دن ایک جلسے میں یوٹرن لے کر نہ صرف فوج کو گالیاں دی گئیں بلکہ ان دھشت گردوں کو بے گناہ بھی قرار دیا( یہ بات ریکارڈ پر ھے) ۔

فوجی آپریشن کے حوالے سےبات آگے بڑھی تو بتایا گیا کہ دو ہزار چھ ہزار میں امریکہ نے مدد کی پیشکش کی لیکن مدد کو صرف لاجیسٹک سپورٹ تک محدود رکھا گیا کیونکہ اپنی زمین پر کسی اور کا اُترنا ہرگز گوارہ نہیں ،گفتگو ہوتی رہی لیکن شکوے اور دکھ کا عنصر نمایاں رہا اور المیہ یہ ہے کہ یہی صورتحال دوسری طرف بھی ہے ۔ دفعتًا میرے ذھن میں ایک اُمید کی روشنی چمکی کہ انتقام پر شکوہ اور دکھ غالب ہیں گویا حالات ابھی پوائینٹ آف نو ریٹرن پر نہیں گئیے اور غلط فہمیوں کی کل طاقت ہوتی کتنی ہے ؟
بس چند دانا اور مخلص لوگوں کی ضرورت ہے ۔

جرگہ اور مکالمہ تو ہوتا ہی اسی لئیے ہے ۔ اپنی اپنی غلطی کو ماننا اور ماضی کو دفن کرنا کونسا مشکل کام ہے اور جب دمکتا ہوا مستقبل آپکی آئندہ نسلوں کو تحفظ اور بقاء کی ضمانت بھی دینے پر تیار ہو۔
میں نے اپنے کاغذات سمیٹے کرسی سے اُٹھا اور اپنے میزبان کی طرف مصافحہ کے لئیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے ان کی آنکھوں میں جھانکا تو وہاں امُید کی روشنی تیر رہی تھی، ہاتھ ملایا تو اس کی تپش مزید بڑھ گئی تھی اور خوش آئند بات یہ تھی کہ خلوص ان سب پر حاوی تھا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :