آن لائن کلاسز

پیر 22 جون 2020

 Hammad Javed

حماد جاوید

وقت کا تقاضہ دیکھیں کہ پاکستان اس کورونا کی وبا کے سنگین مسئلے میں کتنا آگے نکل چکا ہے اب تو ایسا محسوس ہوتا کہ واقعی تبدیلی کا دور شروع ہوگیا ہے. کیونکہ آن لائن کلاسز  نے چار دیواری سکول اور کالجز کی جگہ لے لی ہےاب بچے گھر بیٹھ کے تعلیم حاصل کریں گے. مسائل ہمارے ملک پاکستان میں چلتے رہتے ہیں.ابھی آن لائن کلاسز کا بھی ایک مسئلہ درپیش ہے.سب سے پہلی اور پریشانی والی بات یہ ہے کہ آج سے ایک سال قبل جب اسکولوں میں پیرَنٹ ٹیچر میٹنگ ہوتی تھی تو اساتذہ بچوں کے والدین سے شکایت کرتے تھے کہ بچوں کو موبائل کی پہنچ سے دور رکھیں ان کی تعلیمی کارکردگی اچھی نہیں جا رہی.اب موجودہ حالات یہ ہیں کہ بچہ چاہے پریپ کا ہو یا میٹرک کا واٹس ایپ کے ذریعے تعلیم دی جا رہی ہے. چلو مانا یونیورسٹی کے طلباء کے پاس فون میسر ہیں اور واٹس ایپ کے روزمرہ کے یوزر بھی ہیں.لیکن ان چھوٹے بچوں کی آن لائن تعلیم سمجھ میں نہیں آرہی پہلے بچوں کو فون  سے دور رکھنے کی نصیحتیں اور بچوں کو  فون دے دو چاہے وہ الگ کمرے میں بیٹھ کر اپنے من پسند یدہ کارٹون میں مگن ہوں.پہلی بات یہ کہ والدین فون اپنے پاس رکھیں گے یا بچوں کو دیں گےاب اگر کسی اللہ والے کے چھےبچے ہوں اور ایک فون ہو تو وہاں تو ٹاس ہی ہوا کرے گا.یہ تو بات بھی ان بچوں کی جن کے والدین کے پاس جدید فون ہیں دوسری طرف وہ والدین کے پاس یہ سہولت موجود ہیں نہیں وہ کیسے اپنے بچوں کو اس وقت کے ضیا والی تعلیم دیں گے.حکومت کو ان چیزوں پر دھیان دینا چاہیے اور پرائیویٹ سیکٹر پر تھوڑی سی نظر ثانی فرمانی چاہیے.اب میں آپ کی توجہ ایک ایسے مسئلہ پر ڈالوں گا جو کہ اُن آن لائن کلاسز کا ہے جن کا سامنا یونیورسٹی کے طالب علموں کو کرنا پڑ رہا ہے.میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ طالبہ کے لیے بہت بڑا ڈپریشن ہے.طلباء کو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، یہاں تک کہ وہ طلبہ جن کا تعلق پسماندہ علاقوں سے ہے۔

(جاری ہے)

ان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے لیکچرز آن لائن لیں کیوں کہ انھیں انٹرنیٹ کی دشواری کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر یہ سب ڑیپارٹمینٹس کا مسئلہ ہے لیکن خاص طور پر وہ طلباء جو ریاضی ، طبیعیات ، انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کے لئے لیکچر سمجھنا ناممکن ہے۔ اور وہ طالب علم جن کا تعلق پسماندہ علاقوں سے ہے ، وہ اپنے لیکچر کیسے لے سکتے ہیں۔

وہ اپنے ہم جماعتوں سے کیسے مل سکتے ہیں جو آن لائن لیکچر دے رہے ہیں؟اگر نہیں ہو سکتا ایسے تو طلباء سے فِیس کس بات کی؟جن بچوں تک رسائی نہیں تو ان سے فیس کے مطالبے آخر کیوں؟ کچھ دن پہلے میرے محلےمیں ایک اَنکل سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ قدرے پریشان ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ معاملہ کیا ہے ، انھوں نے بتایا کہ ان کے کالج جانے والے تین بچے ہیں۔

  ان سب کو آن لائن کلاس لینا پڑتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس صرف ایک کمپیوٹر ہے اور تینوں بچوں کی بیک وقت کلاسز ہیں۔تو اس چیز نے سوچنے پر مجبور کر دیا, یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس طرح اَنکل جیسے بہت سے خاندان ہیں۔ پھر ایسے لوگ ہیں جو کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کا متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ وہ لوگ ہیں جن کے پاس اسمارٹ فون ہے لیکن والد صاحب کو کام کے لیے مجبوراً  اپنے ساتھ لے جانا پڑتا ہے یا اگر موبائل سیٹ گھر پر ہے تو ان کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے۔

اور پھر ایسے لوگ ہیں جو اب بھی سمارٹ فون نہیں رکھتے ہیں۔ اسمارٹ فون رکھنے والے بیشتر افراد فون کی ساری خصوصیات کو نہیں جانتے - زیادہ تر اگر جانتے بھی ہیں تو صرف یوٹیوب چلانا اور تصاویر کھینچنا۔ اگر تمام طلبا تک رسائی حاصل نہیں ہو رہی ہے تو آن لائن کلاسیں کس طرح فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں؟ اور بہت سے ایسے مسائل درپیش ہیں جو کے طلبا ء کو پریشانی میں ڈالیں ہوا ہیں. حکومت سے عاجزی کے ساتھ گزارش ہے کہ جلد ہی اس مسئلے کو حل کیا جائے کیونکہ طلبہ کو قیمتی معلومات فراہم کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ امید ہے لہذا ہماری حکومت اس کے خلاف مثبت اقدام اٹھائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :