پیٹرول یا کوہِ نور کا ہیرا

ہفتہ 13 جون 2020

 Hammad Javed

حماد جاوید

بحران, کرپشن,سیاسی پارٹیاں, کرونا, ارطغرل یہ سب الفاظ ہمارے روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں. .یہ ملکِ پاکستان کا ہر بندہ جانتا ہوگا, اور اس پر بحث مباحثہ کے لیے بہت سارا وقت بھی ہوگا. .لیکن درحقیقت یہ ہمارے ملک کے ابھرتے ہوئے مسائل ہیں.
 
پہلا مسئلہ جو اج سے چند ماہ پہلے ایک کرونا کی شکل میں شروع ہو چکا تھا, اور ابھی تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور کافی جانیں نِگل گیا.اس سنگین مسئلے سے ہمارا ملکِ پاکستان کافی مشکلات سے گزر رہا ہے لیکن خیر نہ جانے کب اس عذاب سے چھٹکارہ حاصل ہوگا.

اس کے بعد جو مسئلہ ہے وہ مسئلہ نہیں بلکہ ہر شخص بوڑھے, نوجوان, بچے کی کمزوری بن چکا ہے.وہ اور کچھ نہیں بلکہ ترکی ڈرامہ ہے جس کا نام غازی ارطغرل ہے.

(جاری ہے)

اس ڈرامہ نے پاکستان میں کافی مقبولیت حاصل کر لی ہے .مقبولیت حاصل ہونےکے ساتھ ساتھ  ہر گھر کی زینت بن چکاہے.
 
اور اس کے ساتھ ہی ہمارے ڑرامہ انڈسٹری اور کچھ اداکاروں کو اس ڈرامے سے کافی اختلافات بھی ہوئے.ان سب کا کہنا ہے اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ترکش ڈرامے ہمارے پاکستانی انڈسٹری پر عبور حاصل کر لیں گے.

اور ہم کہیں کے نہیں رہیں گے .لیکن کہتے ہیں نا جہاں پیار زیادہ ہو اختلافات بھی نکل ہی آتے ہیں. لیکن امید رکھتا ہوں اس ڈرامہ کے ذریعے ہماری قوم کو کافی کچھ سیکھنے کو ملے گا .کیونکہ اس ڈرامہ میں نہ تو کوئی دانش کی موت مرتا ہے نہ تو ساس بہو کے جھگڑے ہیں.اس میں تو آستین کے سانپ اور ایک مسلمان کا جذبہ ایمانی دکھایا گیا ہے.اگر بات کی جائے آستین کے سانپ کی تو وہ ہر جگہ ہیں آپ کے دائیں بھی ہوسکتیں  ہیں, آپ کے بائیں بھی, نہ جانے اپ جہاں بیٹھے وہاں آستین کا سانپ ہو, وہ کہتے ہیں نہ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں یہ مسئلے تو ایک جگہ لیکن کچھ مسئلے ایسے ہیں جو کہ عام آدمی کو کافی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں.جیسا کہ گندم کا بحران, آٹے کا بحران, پیٹرول کا بحران, اور مختلف ایسے بحران جن کا سامنا ایک عام انسان کو کرنا پڑتا ہے.ان میں سے کچھ بحران  آٹا اور گندم جیسے ہیں یہ مہنگائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں  مطلب کے ایک چیز کے دام کا بڑھ جانا اور ایک عام آدمی کی رسائی اس تک نا ہونا.لیکن یہ پیٹرول کا بحران تو ایسے ہوگیا ہے جیسے کوہِ نور کا ہیرا ہولگاتار نو دن سے اس کی بندش اور بلیک مارکیٹنگ نے ہر کسی کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے.پٹرول اب بلیک میں بکنے لگ گیا ہے جہاں فی لیٹر 75 روپے ہونی چاہیے تھی وہاں بات سو دو سو تک جا پہنچی.جہاں پیٹرول موجود ہے وہاں لمبی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں اور بِنا کسی کرونا کے خوف سے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے.
 
کرونا تو ایسے انتقال کر گیا ہو.اور لمبی قطاروں کے بعد بھی جب آپ کو پیٹرول ملتا ہے تو اس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہوتی ہے.چلیں مانا بلیک میں بیچ رہیں ہیں تو أپ اس کی قیمت کو 75 سے 90 تک لے جائیں لیکن ڈیڑہ سو اور دو سو تک لے جانا بہت ہی غیر مناسب بات ہے .آپ ایک رکشہ ڈرائیور کی مثال لے لیں جہاں وہ پورے دن میں 15 گھنٹے کام کرتا تھا وہاں اب  اسے تین سے چار گھنٹے پیٹرول خریدنے کے لیے قطار میں لگنا پڑتا ہے.

اور اپنی دیہاڑی کے وقت میں سے ایک قطار میں اتنی دیر لگنے کے با وجود اسے مہنگا ملے یہ ذیادتی کے علامات ہیں.حکمران اب تک کیوں سو رہے ہیں اور کب جاگیں گے اور اپنی قوم کے اس برے حال کو دیکھیں گے.اور آخر کب اس پر ایکشن لیں گے.پٹرول کی نایابی تو بہت مہنگی پڑتی جا رہی ہے موجودہ حکومت نے تو باری باری ہر چیز کو نایاب کر ڈالا پہلے اپنی پارٹی کو نایاب کیا کہ ایسی پارٹی ملکِ پاکستان کی تقدیر بدل ڈالے گی پھر ٹماٹر کو نایاب کیا, پھر آٹا, چینی اور اب  پٹرول کی باری اور نہ جانے اس کے بعد کیا کیا نایاب دیکھنے کو ملے گا اب ہر شخص کی حالتِ زندگی ایسی ہو گئ ہے.
 
زندگی جبرِمسلسل کی طرح کاٹی ہے ہم نے
نا جانے کس جرم کی سزا پائی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :