ماں باپ کا رشتہ‎

بدھ 12 مئی 2021

Hamna Muhammad Mujtaba

حمنیٰ محمد مجتبیٰ

ماں باپ کا رشتہ کیا ہوتا ہے؟ سب سے اوّل تو یہ انتہائی مقدس اور پاک رشتہ ہے، جس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ یہ بے انتہا محبت کا رشتہ ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ دوستانہ رشتہ۔
سب سے اول تع یہ ہے کہ اس جدید دور میں داخل ہونے کے باوجود ہم اس رشتے میں آکر انتہائی تنگ سوچ کے مالک بن جاتے ہیں۔ بے جا سختی کی ایسی فضا اردگرد بنا کر رکھتے ہیں کہ بچہ ہمیشہ سہما رہتا ہے، کبھی بھی وہ اپنے دل کی بات ماں باپ سے نہیں کہہ پاتا۔

اگرچہ وہ بیچارہ بڑی مشکلوں سے ہمت اکٹھی کر ہی لے تو اس کے جواباً ہمارے والدین کا ایسا رویہ ہوتا ہے کہ تا عمر وہ دوبارہ ایسی غلطی کا سوچتا بھی نہیں۔
 اگر ہم ضروریات فراہم کر رہے ہیں تو ہم والدین ہونے کا فرائض ادا کر رہے ہیں جس کے بارے میں روز محشر ہم سے پوچھ ہو گی کہ کیا ہم نے ان کی ضروریات کا خیال رکھا اور ذن کو بہتر انسان بنایا اور ایک فرض یہ بھی واجب ہے کہ ہم ان کو پاس بٹھا کر ان کی بھی سنیں اور پھر انہیں اپنی بات سمجھایں۔

(جاری ہے)


 قرآن میں والدین کا بہت رتبہ بتایا گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اولاد کے کچھ حقوق بھی۔ اس بات سے ہرگز منکر نہیں کہ والدین اولاد کا ہمیشہ بھلا چاہتے ہیں مگر آخر وہ بھی ایک انسان ہیں اور انسان غلطیوں کا پتلا تو کیا ہی بہتر ہو کہ ایک دفعہ اولاد کی رائے کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے کہ اس کی آپ سے منسلک محبت کا بھی مان رہ جائے۔
 ہم لوگ جہاں اپنی مرضی ہوتی ہے اور جہاں کسی فائدے کا حصول ہوتا ہے تو بس اسلام اور حدیث لے آتے ہیں۔

جبکہ صرف اپنے فائدے کے معاملات میں نہیں بلکہ ہر معاملے کو قرآن اور سنت کی روشنی سے دیکھنا چاہیے۔ حضرت فاطمہ کے حضرت علی سے نکاح سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سرکار دو عالم نے اپنی پھول سی بیٹی فاطمہ سے ان کی رائے پوچھی۔ جب وہ ہستی نے اولاد کی پسند ناپسند کا اتنا خیال رکھا تو آپ اور ہم کون ہوتے ہیں جو اپنی مرضی سے زندگیاں تباہ کریں۔


 یہ مرضی صرف شادی بیاہ تک ہی محدود نہیں بلکہ بچے کے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے سے لے کر ہر شہ میں اپنی مرضی مسلط کی جاتی ہے۔ کچھ اولادیں تو فرمانبرداری کا مان رکھتے سر جھکا دیتی ہیں مگر آج کی یہ اکیسویں صدی میں وہ فرماں برداری بہت کم ہوگئی ہے تو والدین کے آگے کھڑی ہو جاتی ہیں جو انتہائی کبیرہ گناہ ہے۔ جس کی اسلام نے سخت تنبیہ کی ہے۔

مگر یہی اگر ہم دوستانہ رشتہ رکھتے ہوئے ان کی پسند اور نا پسند کو اہمیت دیں تو یہ تعلق بہت بہتر ہوسکتا ہے اور بہت سی زندگیاں غلط فیصلوں سے بچ سکتی ہیں۔
 ایسا ہرگز بھی نہیں کہ پریشانیاں صرف آپ یا ہمیں ہی  ہیں۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو ہماری یہ اکیسویں صدی ہم سے کئی گناہ زیادہ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہے۔ پھر وجوہات بعض بہت معمولی بھی ہوتی ہیں، پر ان کا سب سے بڑا ڈیپریشن یہی رہتا ہے کہ وہ اس مشکل کے وقت میں اپنا حال دل کس سے کہیں، جو ان کے درد کو سمجھے اور صحیح راستہ بھی دکھائے۔

اللہ پاک نے والدین کو اپنا ایک روپ بنا کر دنیا میں بھیجا ہے اسی وجہ سے کہ وہ رہنمائی کر سکیں اور وہ راستہ دکھا سکیں جس وقت انسان رب سے کہیں دور مشکلات کی گتھی میں الجھا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ انہی بے جا سختیوں کی وجہ سے بچہ غلط راستوں پر گامزن ہو جاتا ہے اور کئی دفعہ تو خودکشی بھی کر لیتا ہے کیونکہ وہ ماں باپ کی نظر میں پرفیکٹ نہیں بن پاتا۔


 اللہ پاک نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتیں اور ذہانت دی ہے۔ خدارا اپنے بچے کا موازنہ کسی اور کے ساتھ کرکے اس کی ذات کی تذلیل نہ کیجئے۔ انسان ایک کلی ہے جس کو آپ پانی دو گے، اس کی دیکھ بھال کرو گے، اس کی تعریف کرو گے، سردی اور گرمی میں اس کا خیال کرو گے تو وہ جلد ہی کھلے اور پھولے گا۔ جبکہ دوسری طرف آپ اس کی کلی سے پھول بننے کے اس سفر میں اگر اس کا ساتھ نہیں دیں گے تو وہ کبھی بھی سہی سے کلی سے پھول کا سفر نہیں کر سکے گا۔


 والدین تو ایسی جنت کی ہوا کی مانند ہوتے ہیں جن کے گلے لگ کر انسان کے سارے غم تیز ہوا میں بادل کی طرح گم ہو جاتے ہیں۔
 اس معاملے میں انگریز ہم سے لاکھ گنا  بہتر ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ان اصولوں کو اپناتے ہیں جن کو اپنانے کے لیے ہم مومنوں کو کہا گیا ہے۔ ان کا رویہ ان کے بچوں کے ساتھ انتہائی دوستانہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کی ایک ایک بات کو اتنی ہی ترجیح دیتے ہیں جتنی وہ خود کی بات کو۔

  اسی وجہ سے وہ کم عمری میں ہی انتہائی پر اعتماد ہوتے ہیں اور صحیح اور غلط کا فرق بھی جلد سیکھ جاتے ہیں، اور یہاں ہم براؤن پیرنٹس اپنے بچوں کو کبھی فیصلہ لینا سیکھنے ہی نہیں دیتے اور اس کا خود پر اعتماد بحال ہونے نہیں دیتے۔
 آپ کے بچے بھی اتنے ہی انسان ہیں جتنے آپ، اور ان کو بھی اپنی رائے پیش کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کو ہے۔

وہ بھی اداس ہوتے ہیں اور آپ کے دلاسے کے منتظر ہوتے ہیں، چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر آپ کی طرف سے حوصلہ افزائی کی راہ دیکھتے ہیں، ڈھیروں دل میں وہ باتیں جو ان کو ہر روز پریشان کرتی ہیں وہ سب دل میں دبائے اداس آنکھوں سے خواہشمند رہتے ہیں کہ کسی روز تو آپ ان کی آنکھوں میں چھپا درد سمجھیں گے اور وہ آپ سے دل کا حال بیان کریں گیں۔ زیادتی ہر چیز کی بری ہے اور اسی طرح بے جا سختی بھی۔
" اپنی ٹھنڈی چھاؤں کو تپتی ہوئی دھوپ مت بنائیے جس کی لُو میں آپ کی اولاد جلتی رہے"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :