قیامت‎

جمعہ 7 مئی 2021

Hamna Muhammad Mujtaba

حمنیٰ محمد مجتبیٰ

(قیامت اس وقت تک نہیں قائم ہوگی جب تک ایسے حالات نہ ہو جائیں گے کہ ایک آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے کہے گا
"کاش میں اس کی جگہ ہوتا"
 یہ اللہ سے ملاقات کی شوق کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ سنگین حالات اور آزمائشوں کی وجہ سے ہوگا)
 یہ حدیث میرے زیرِ نظر گزری تو گزشتہ سال کےحالات و واقعات، بیتے لمحے، اپنوں اور غیروں کے رویے اور لوگوں کی باتیں، سب کچھ میرے ذہن کے گمنام دریچوں سے باہر جھانکنے لگا۔


 حقیقتاً یہ سو فیصد سچ ہے اور اس دور میں ہم داخل ہوچکے ہیں اور بے شک قیامت بہت قریب ہے۔ اب جب بھی کسی کے انتقال کی خبر سنی جائے تو عموماً اس کے یہی الفاظ ہوتے ہیں
 "اللہ نے اس کی آسانی کر دی، اس کی مشکلات ختم کردیں، بیچارا بہت تنگ دستی کی ذندگی اور مشکلات سے دوچار تھا"
 پہلے جب میں لوگوں کے ایسے الفاظ کسی مرنے والے کے لئے سنتی تو مجھے ان کی سوچ پر حیرت اور افسوس ہوتا تھا کہ کیسے یہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا انہیں پتہ نہیں کہ قبر کا مرحلہ اور اعمال کا حساب کتاب وہ امتحان کتنا مشکل ہوتا ہے؟ کیا ان کی روح نہیں کانپتی؟
 کیا دوسرے مسلمان بھائی بہن کے لئے ایسے الفاظ کہنا ان کے لیے بغیر کسی احساس کے سوچے سمجھے بنا اتنا آسان ہے؟ یہ سوال مجھے اکثر پریشان کرتے رہتے اور میں ان پر اکثر اوقات غوروخوض کرتی مگر اختتام پر مجھے ان کی سوچ اور انسانیت پر افسوس اور گلہ ہی ہوتا ہمیشہ۔

(جاری ہے)


  گزشتہ سال میں آنے والی عالمی وبا سے تو آپ سب ہی واقف ہیں انسان اس وبا کو ہی کوستا رہتا ہے جب کہ یہ اللہ کی طرف سے ہمارے لئے اس کی طرف لوٹنے کاایک بلاوا ہے۔ کیونکہ چودھویں صدی جس دلدل کو کامل سمجھتے ہوئے اس میں ڈوبتی جارہی ہے اس سے آشنائی کے لیے اس ذات کی طرف سے واپس لوٹنے کا ایک بلاوا ہے یہ۔
  لیکن ابن آدم نے اپنے اور اپنے پروردگار کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کر لی ہے جس کو عبور کرتے یقیناً وقت درکار ہے مگر ابن آدم کے بڑھتے ایک قدم پر وہ رحیم ذات خود با خود باقی راستے آسان کر دے گی۔

مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب حقیقی طور پر انسان اس چیز کو گہرائی میں جاکر سمجھے اور اس پر عمل کرے۔
  ہماری معیشت پہلے ہی کچھ خاصی اچھی نہیں، روز غریب بھوک کی موت مرتا اور فہرست اتنی لمبی ہوتی کہ معلوم ہی نہیں کتنے لوگ بھوک کی موت مارے گئے۔ مگر عالمی وبا کے بعد ہم انسانوں نے ایک دوسرے کے لئے بجائے سہولیات فراہم کرنے کے ہمارے حکمرانوں نے ہر چیز پر سونے کا پانی چڑھا دیا ۔

عالمی وبا سے جو انہوں نے دو دن بعد مرنا تھا، ہمارے حکمرانوں نے ایسی عمدہ سکیم پیش کی کہ بھوک کی موت نے انہیں آج ہی مار دیا ۔
  بے شک ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور ہمیں لوٹ کر اپنے رب کے پاس ہی واپس جانا ہے مگر فرق ہے خدائی موت میں اور خود کے پروپیگنڈا کر کے مار ڈالنے میں۔
اماں اکثر کہتی ہیں خدا کسی دشمن کو بھی پیٹ کی مار نہ دے کیا اس بات سےصاف صاف ظاہر نہیں کہ آپ اپنے دشمن کے لئے بھی ایسے ظلم کی دعا نہیں کر رہے۔


کوئی شک نہیں دنیا میں نیک لوگ بھی موجود ہیں، جبھی تو یہ قائم ہے۔ اپنے اردگرد صاحبِ استطاعت اور خدا کے رحیم بندوں نے آگے بڑھ چڑھ کر اس مشکل وقت میں بہت مدد کی مگر آپ صرف پاکستانی آبادی پر غور کریں تو ماشاءاللہ بہت فضل ہے اور اس سے بھی زیادہ فضل غرباء کا ہے۔
معاشرت افلاس کی ہے اور اگر کوئی غریب ہے تو چوٹی کا ہے اور اگر کوئی امیر ہے تو بے بہا کا ہے مگر افسوس دل اتنا ہی غریب۔


یہاں پر تو حکمرانوں نے جو بھلا کیا سو کیا باقی جو کسر وہ ہمارے وہ اپنے جنہیں ہم رشتہ دار اور وہ رشتے جو حیاتیاتی طور پر خونی رشتے کہلاتے ہیں بچی بچی کسر انہوں نے پوری کر رکھی ہے۔
زبان کی بےجا تیزی اور رویوں کے تیر، اور حسد میں بھنتے غلط ترکیبیں استعمال کرتے ہوئے زندگی کو دوزخ بنانے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے یہ ہمارے اپنے۔
کالے جادو سے تو آپ سب بخوبی واقف ہوں گے اور اس بات سے کوئی منکر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہ کوئی توہم پرستی ہے جس کو پڑھ کر آپ معیوب سمجھ رہے ہو۔

ہمارے قرآن پاک میں صاف صاف اس کے بارے میں بہت واضح طور پر اللہ تعالی نے سب بیان فرمایا ہے تو آپ یا میں پھر کون ہوتے ہیں اور کسی بھی بنا پر ہم انکار نہیں کر سکتے۔
آج کے دور میں انسان حسد اور کسی چیز کے حصول میں اس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ غلط اور صحیح کا سوچے بنا وہ بس حاصل کرنا چاہتا ہے اور کسی بھی قیمت پر نہ ہو سکے تو حسد میں جلتے بلتے ایک دوسرے کی خوشیوں کو ختم کر دینے کی غرض سے کب دائرہ اسلام سے باہر نکل جاتا ہے اسے علم بھی نہیں ہوتا۔

اور جب بالفرض اس بات کا احساس ہوتا یا دلانا پڑتا تو عزرائیل کے ذمے یہ کام سپرد کیا جاتا ہے۔
اہل احباب یا رشتے داروں میں یا آپ کے گھر میں ہی سے کوئی لازم و ملزوم ایک شخص ضرور ہوتا ہے جو آپ کی خوشیوں سے اندر ہی اندر بھنتے ہوئے غلط ترکیبوں کا سہارا لیتے تباہی کے دہانے پر آپ کو لا کھڑا کرتا ہے۔ جس کے بعد آپ حیات جیسے انمول تحفے سے عاجز و پریشان ہو کر موت کی منشا کب آپ کے وجود میں جگہ کر لیتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔

اس کی بھی وجوہات ہیں خدا سے دوری اور دیگر مگر آج میں اس پر بات کر رہی کہ ایسے حالات پیدا کرنے والے ہم اشرف المخلوقات خود ہی ہیں۔ اگر آپ اپنے چاروں اطراف نظر دوڑائیں تو آپ تجزیہ کر سکتے ہیں کہ ہر شخص پریشان ہے اور ہر لمحہ کبھی حالات سے، کبھی اپنوں سے اور کبھی زندگی سے لڑ رہا ہے، مگر آزمائشوں کا بادل ہے کہ چھٹتا ہی نہیں۔ اس بات پر کہاوت یاد آگئی کہ جو دوسروں کے لیے گڈا کھودتا ہے وہ خود بھی اس میں ضرور گرتا ہے۔

اگر آج آپ کسی کا سکون غارت کرو گے تو خود بھی کبھی تسکین نہیں پاؤ گے۔
اگر آپ کسی کے لیے آسانی نہیں پیدا کر سکتے تو خدارا تو جیتے جی اس کے لیے حیات جیسے انمول تحفے کو جہنم کی آگ بھی نہ بنائیں۔  
روز محشر کیا کہیں گے آپ اس ذات سے "کہ اے اللہ میں نے تیری مخلوق کو تیرے سب سے خوبصورت ترین تحفے سے اس قدر نفرت اور بد زن کر دیا کہ ہر مرنے والے کو دیکھ کر وہ یہ منشا کرتا کہ کاش اس کی جگہ میں ہوتا"
جب یہ حدیث میرے زیر نظر ہوئی تو ارد گرد کے حالات و واقعات اور انسانوں نے اس کی ایسی تشریح کی کہ وہ سوالات جو میں سوچتی تھی کسی کے مرنے پر کوئی دوسرا انسان ایسا کیوں کہہ رہا ہے اور کسی دوسرے کے انتقال پر لوگ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں کہ کاش اس کی جگہ ہم چلے جاتے سب چیزیں جیسے کھلم کھلا اعلان کرنے لگی، ایک ایک حرف اپنی وضاحت دینے لگا۔


یقیناً ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں پر ہمارے اردگرد غم اور آنسو کے کانٹے زندگی کے اس سفر میں بے تحاشا ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ مزید ہوتے جا رہے اور یہ بہت بڑی آزمائش ہے کیونکہ قیامت بہت زیادہ دور نہیں
تو کوشش کیجئے آسانیاں پیدا کریں دوسروں کے لئے تاکہ وہ ذات آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :