فاصلہ دو دوستوں کے مابین

جمعہ 4 جون 2021

Hamna Muhammad Mujtaba

حمنیٰ محمد مجتبیٰ

آپ اگر اپنے اطراف اور بچپن پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ایک چیز نظر آئے گی کہ جب بھی ہم کوئی غلط کام کرنے لگتے تھے تو ہماری اماں یا ابا یا کوئی بڑا ہمیں یہ بات کہہ کر تنبیہ کرتا تھا کہ "ایسا مت کرو اللہ تعالی غصہ ہو جائیں گے، پتا ہے نہ اللہ تعالی کتنے غصے والے ہیں"
ہم جو پہلا کنیکشن بچے کا اس کے رب سے جوڑتے ہیں اس کی بنا ہی خوف پر رکھتے ہیں۔

جس سے اس کے دل و دماغ میں اپنے رب کی جو تصویر تشکیل ہوتی کہ اس کا رب تو بہت غصے والا ہے، جو بہت ہی غصہ کرتا ہے ہر بات پر۔ جبکہ یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ بیٹا ایسا مت کرو یہ ایسا کرنے سے اللہ تعالی ناراض ہو جائیں گیں۔ اب اگر آپ تھوڑا غور کریں اور اس بات کی گہرائی میں جائیں تو آپ اس بات کو سمجھنے لگیں گے کہ غصہ کرنے اور ناراض ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

(جاری ہے)

ناراضگی محبت کا اظہار ہے جب کہ غصہ خوف کا۔ اس کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک ملازم ہے جو اپنے باس کے انڈر کام کر رہا ہے۔ وہ ہر کام کو احسن طریقے سے ٹائم پر بخوبی پورا کرتا ہے۔ مگر اس کے پیچھے جو موجب ہے وہ باس کا غصہ ہے۔ اب اس غصے سے بچنے کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ کبھی شکایت کا موقع نہ دے۔ اب یہی بیج ہم بچے اور اس کے رب کے رشتے میں بوتے ہیں۔

جس سے وہ غصے کی ہیبت سے منع تو ہو جاتا، تا حیات نمازیں بھی ادا کرتا،  زکوۃ اور  باقی تمام عبادات بھی کرتا مگر اس میں وہ تعلق، وہ ربط کبھی قائم نہیں ہو پاتا جو دو دوستوں کے مابین ہوتا ہے۔ ہمیں ہمارے بڑوں نے اور ہم نے اپنے بچوں کو کبھی اس بات کو نہیں سکھایا اور نہ سکھاتے کہ اس نیلی چھتری والے کو دوست بناؤ بہترین دوست۔ جس دوست کی صفات ان گنت ہے تاکہ وہ غصے کی ہیبت سے نہیں بلکہ محبت سے زیر سجدہ ہو اپنے رب کے حضور۔

اللہ تبارک و تعالی نے اپنے نور کا ایک خاص حصہ روح کی صورت میں آدم میں پھونکا ہے۔ اب آپ یہاں سے اندازہ کیجئے کہ کتنا خاص تعلق اور کنیکشن ہے ہمارا جس کو ہم خوف اور غصے کی نظر کرتے ہوئے عجیب اجنبیت کا تعلق تشکیل دے دیتے ہیں۔
وہ جو ولی بنے، پیغمبر گزرے، صوفی رہے ان سب نے رب کو اپنا دوست بنایا اور وہ جو خدا کا قرب پاتے ہیں وہ در حقیقت رب سے یارانہ لگاتے ہیں جس کا حصول میں وہ اس کل کائنات کے بادشاہ کی تمام تر محبت کو پاتے ہیں۔


میں ایسا نہیں کہہ رہی کہ ہمارے والدین نے ہمیں غلط تعلیمات دی پر کچھ گنجائش جو ان سے رہ جاتی وہ یہی کہ وہ صحیح کنیکشن جوڑ نہیں سکے۔ انہوں نے باس اور ملازم کا ربط بنا دیا جو نسلوں سے چلا آرہا ہے اور بہت کم لوگوں نے اس کی اصل حقیقت کو جانتے سمجھتے اپنے رب کو پہچانتے اس سے دوستی کا کنیکشن قائم کیا۔
اگر آپ کا باس آپ سے غصہ ہو جائے تو کیا آپ اس کو ملازم کی حیثیت سے اس کا غصہ کم کرسکتے ہیں؟ یا پھر آپ کا دوست روٹھ جائے تو آپ اس کو منا سکتے؟ ظاہری سی بات ہے ہم روٹھے ہوئے دوست کو منا سکتے ہیں پر خفا ہوئے باس کو نہیں۔


مجھے اکثر بہت سی باتیں الجھاتی ہیں اس بابت پر کہ وہ کہتا ہے کہ میں ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہوں۔ اب ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایک ماں کی محبت کیا ہوتی ہے۔ تو یہاں تو وہ ستر ماؤں کی محبت کی بات بیان کر رہا ہے۔ مگر شاید ہم نے کبھی اس بات کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اس کے باوجود میں نے آدم کو دیکھا ہے یہ کہتے اور گلہ کرتے کہ
وہ میری نہیں سنتا
وہ نہ جانے کیوں میرے سوالوں کا جواب نہیں دیتا
 وہ خفا ہوگیا ہے مجھ سے
 وہ مجھ گنہگار کی آواز پر کیوں جواب دے گا
 وہ بھی اس دنیا کی طرح عاجز آگیا ہے مجھ سے
تو یہاں سے وہ بیج جو بچپن میں بویا ہوتا ہے وہ اب جوانی میں اپنی شاخیں پکڑتا ہے۔

کہ ہم نے نہ جانے کیوں رب کو لے کر اس قدر مایوس ہو گئے ہیں۔ وہ تو اتنا رحیم ہے کہ ایک آنسو بھی اگر سچے دل سے اس کی بارگاہ میں بہاؤ تو وہ سمندروں جتنے کبیرہ گناہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ پھر مومن کیوں اپنے رب کو لے کر اتنا بدگمان ہے؟
یہی اگر دوستی کا کنیکشن قائم کیا جاتا تو آج اگر رب ناراض بھی ہوتا تو کبھی بھی ایسے سوال بیدار نہ ہوتے۔ وہ اپنے اللہ کو مناتا اور اس پختگی سے جیسے ایک دوست دوسرے دوست سے ناراض تو ہوتا ہے مگر وہ کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اس ہی مان سے کہ وہ اس کی محبت کا بھرم رکھتے اس کو منائے گا۔

مگر ہم لوگوں کو بیسک تعلیمات اللہ کو لے کر ٹھیک نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے ایک گہرا فاصلہ انسان اور رب کے مابین آ کھڑا ہوا ہے۔
ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رکھیے وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا  آپ سے اگر ناراض بھی ہوجائے تو وہ آپ کے منانے کا منتظر رہتا ہے۔ کہ کب اس کا بندہ آئے اور اس سے بات کرے۔ اگرچہ آپ کوئی خطا سرزد بھی کر بیٹھے ہو تو تب بھی وہ منتظر رہتا ہے میرا بندہ کب مجھ سے معافی مانگے تو میں معاف کرو اور جب ٹوٹے دل کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حال دل بیان کرے تو وہ منتظر رہتا ہے میرا بندہ مجھ سے کب مانگے گا اور میں اس کو اپنی رحمتوں کے ان خزانوں سے نوازوں گا جو اس کے حق میں بہترین ہیں۔


تو کوشش کیجئے بچے اور رب میں دوستی کا کنیکشن بنائے باس اور ملازم کا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :