صاحب حال‎‎

جمعرات 11 نومبر 2021

Hamna Muhammad Mujtaba

حمنیٰ محمد مجتبیٰ

لوگوں کی چہل پہل ذرا تھم سی گئی تھی۔ سمندر اپنی موجوں کی شوخی پر تھا۔ چاروں اطراف میں جو بکھری تھی وہ چاند کی چاندنی تھی اور چمکتے فلک پر ستارے تھے جو چاند کی چاندنی کو مزید دلکش بنا رہے تھے۔ چاروں اطراف خاموشی تھی، شور صرف لہروں کا تھا۔ اور شوخیان تیز موجوں کی جو کوئی رقص سا کر رہی تھیں کبھی شوخی سے آکر صحرا سے ٹکراتیں اور پھر خاموشی سے واپس چلی جاتی اور پھر دوبارہ سے پہلے سے زیادہ جوش میں آ کر واپس صحرا سے ٹکراتی۔

اس سب میں جو چیز اس منزل کو قابل دید بنا رہی تھی وہ چاند کی چاندنی سمندر کی لہروں پر گویا ایسا لگ رہا تھا جیسے نیلی روشنی پوری سمندر میں جل رہی ہو۔ مگر اس دلکش منظر کے باوجود گہرا سکوت تھا جو اس کے وجود کو گھیرے ہوئے تھا۔

(جاری ہے)


سمندر سے کچھ دور وہ صحرا پر ٹانگیں پھیلائے وہ بیٹھا تھا جہاں کچھ دیر بعد موجیں اس کے پاؤں کو چھیڑ کر واپس چلی جاتی تھی۔

جیسے وہ اس کو آج جشن میں چھیڑ رہی ہوں۔ اس کی خوشی کے اس موقع پر وہ رفیق بننے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھیں مگر وہ تھا کہ سمندر سی گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔
اس کے کانوں میں مسلسل وہ الفاظ ٹکرا رہے تھے
"صاحب حال بنو عفان صاحب ماضی نہیں"
کیا یہ اس کے بس میں تھا؟ یا یہ سب وہ اپنی مرضی سے کر رہا تھا! کیا وہ خوش تھا یوں اپنی خوشیوں میں بھنگ ڈال کر؟ کیا وہ چاہتا تھا کہ بد سکونی اس کو یوں گھیرے؟ کیا یہ اس کی منشا تھی کہ وہ ماضی کا قیدی بنے یا یوں حال میں اس قید سے رہائی کو ڈھونڈتا مارا مارا پھر ے؟
"کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے چند دنوں بعد تمہاری من پسند لڑکی کے ساتھ شادی ہے۔

دولت کی بھی ریل پیل لگا رکھی ہے اللہ نے۔ ہر آسائش موجود ہے مختصراً وہ سب میسر ہے جو انسان کو اچھی سکون بھری زندگی گزارنے کے لئے چاہیے ہوتا ہے۔ مگر تمہاری ناشکری دیکھو آج بھی اس سب میں پھنسے ہوں جہاں کل کو تھے۔ نکل جاؤ اس ماضی سے اللہ نے دیکھو کتنا اچھا حال اور مستقبل دیا ہے تمہیں۔ کوشش کرو صاحب حال بنوں"
ارباز بھائی کی باتیں اب اس کے دماغ میں باری باری آنے لگی
"صاحب حال کیسے بنتے ہیں؟"
دیر تک مشغول یادوں کے بعد اس نے خود سے سوال کیا
وہ لامحال نہیں جانتا تھا کہ وہ ماضی سے کیسے نکل کر حال میں خوش باش رہے۔

وہ اپنی طرف سے تمام تر کوششیں کر چکا تھا مگر اس کے پیروں میں ماضی کی وہ بیڑیاں تھی جو اس کو ماضی کا قید خانہ پار نہیں کرنے دے رہی تھیں۔ وہ جیسے ہی اس قید خانے سے قدم باہر رکھنے لگتا تھا تو ماضی کی زنجیر دھڑم کر کے اس کو منہ کے بل گرا دیتی اور وہ واپس ماضی میں آ کھڑا ہوتا۔ وہ یہ بات کسی کو سمجھاتا بھی تو کیسے سمجھاتا وہ خود سمجھ نہیں پا رہا تھا مگر دیکھنے والی ہر آنکھ اس کو محض نا شکرا سمجھتی اور اس سے رشک کرتی۔


جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی کی کچھ تلخ یادیں آپ کو لاکھ کوششوں کے بعد بھی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی. وہ آپ کے سائے کی مانند ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔ جو کچھ وقت کے لئے دھندلی تو پڑ جاتی ہیں مگر موقع دیکھتے ہی وہ پھر سے اپنا احساس دلاتی ہیں۔ جو کہ ماضی میں اس گزرے وقت سے زیادہ حال میں باعث تکلیف کی وجہ بنتا ہے۔ صاحب ماضی ہونے کی وجہ سے ایک اور اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ماضی کے اس فیض سے جو گزرے ہوتے ہو حال میں آپ ہر روز اس سے کئی دفعہ گزرتے ہو۔

مختصراً ماضی میں جس پتھر سے آپ نے ایک دفعہ ٹھوکر کھائی ہوتی ہے وہ حال میں آکر ہر روز دن میں کئی دفعہ آپ کے سر پر آ کر لگتا ہے۔
سیانو کا کہنا بھی سچا ہے کہ محض ماضی سے سیکھو اور بس آگے بڑھ جاؤ مگر یہ بھی المیہ ہے جب ماضی میں بہت سی بڑی بڑی قربانیوں کو منوں مٹی کرتے آپ حال کی سیڑھی چڑھو تو آپ ہمیشہ دو کشتیوں کے سوار ہوتے ہیں ایک ماضی اور ایک حال کی۔


ورنہ کون شخص نہیں چاہتا کہ اپنی زندگی کے اہم ترین موقع پر وہ دنیا سے بے گم کہیں کونے میں جا بیٹھے۔ دنیا کے لوگ کبھی اس بات کو سمجھ نہیں پاتے یہ اذیت دوزخ کے عذاب میں سے ایک ہے۔ کہ ہر پل ماضی کی آگ میں جلتے آپ مارے مارے اس مرہم کی تلاش میں پھرتے ہو جس کی دوا صرف اور صرف موت کے بعد ہے۔
وہ اب آسمان کی طرف ہالی الذہن سے دیکھنے لگا اس کا دل بھاری ہو رہا تھا عجیب سا وزن تھا جو اس کے سینے پر بھاری ہوتا جا رہا تھا۔


"میرا کیا قصور ہے؟ میں رہائی چاہتا ہوں! اس قید سے۔ اس اذیت سے۔ مجھے بھی خوش ہونا ہے۔"
وہ پھٹ پڑا
"مجھے اس آگ سے نکال دے مولا نکال دے"
 دونوں ہاتھوں سے سر کے بال پکڑے وہ نوچنے لگا
"میں سکون چاہتا ہوں" وہ چیخنے لگا
"میں سکون چاہتا ہوں۔ سکون چاہتا ہوں۔ سکون چاہتا ہوں۔"
 آواز دھیمی پڑنے لگی تھی، کچھ لخطوں بعد ریت پر مدہوشی کی آغوش نے اسکو گھیر لیا۔
 میں مقید ہوں ماضی کی یادوں کا
 مجھے حق نہیں حال میں جینے کا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :