شیری پہلوان اور عبداللہ

ہفتہ 19 دسمبر 2020

Hamza Safdar

حمزہ صفدر

23 مارچ 1940 محمد عبداللہ اور شیری  پھلوان آل انڈیا ریڈیو سن رہے تھے جب اس میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کا ایک الگ وطن کردیا جائے گا یہ سن کر محمد عبد اللہ جو کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگی بھی تھا اس کو کچھ خوشی بھی ہوئی اور تھوڑا سا غم بھی ہوا غم اس بات کا تھا کہ وہ شاید گاؤں جس کا نام سورسنگ تھا وہ چھوڑ دے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بچپں کے دوست شیری پہلوان  سے الگ ہوجائے شیری پہلوان  عبداللہ کا دوست نہیں بلکہ بھائیوں کی طرح تھا عبداللہ کے آپ  بھی تین بڑے بھائی تھے مگر وہ شیریں پہلوان کو بھی بھائی ہی مانتا تھا اس کی اس گہری دوستی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عبداللہ اور شیری پہلوان  ایک ہی دن  پیدا  ہوئے ایک ساتھ ھی بڑے ھوءے  شیری پہلوان عبداللہ کا ہمسایہ بھی تھا شیری پہلوان سکھ تھا  اور عبداللہ مسلمان تھا مگر  اس وقت کے ان فسادات نے بھی ان کی دوستی پر کوئی اثر نہیں ڈالا محمد عبداللہ  فخرالدین کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور اس سے بڑے اس کے  تیں  بھائی تھے اور ایک بہن تھی عبداللہ کی شادی ایک پاکپتن کی رہنے والی گجری سے ہوئی جس کا نام عظمت بی بی تھا عبداللہ کے سات بیٹے تھے اور کوئی بیٹی نہیں تھی اس کی بیوی کو اس بات پر بہت فخر تھا کہ وہ سات بیٹوں کی ماں ہے سب سے بڑے بیٹے کا نام یوسف اسے چھوٹے کا نام شفیع اور باقی چار غلام محمد، محمد حسین، غلام  قادر، بشیر اور سب سے چھوٹے کا نام نذیر  تھا آزادی کے بات جیسے ہی دھویں تو  بہت فساد ہونا شروع ہوگئے سورسنگ میں بھی تین حصے سکھ اور ایک حصہ  مسلمان رہتے تھے سور سنگ لاہور کے ساتھ پڑنے والا ایک بہت بڑا گاؤں تھا اس میں چار چوکیا تھی اس کا کل رقبہ پنتالیس مربے چونکہ لاہور کا فیصلہ بہت مشکل تھا سکھوں کی خواہش تھی کہ وہ اور ان کے پاس جائے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ لاہور ان کے ملک میں لاہور کے معاملے پر عالمی سطح پر عوامی سطح پر مذاکرات جاری تھے اور قتل شروع ہوگئے سیکھ اور ہندو مل کر مسلمانوں کو قتل کر رہے تھے مسلمان ہندوؤں اور سکھوں کو قتل کر رہے تھے لاہور کے فیصلے پر بہت لڑائی  ہوئ چونکہ سورسنگ کو بھی لاہور ہی  ضلع پڑتا تھا اس لیے سورسنگ  کے رہنے والوں کو بھی بہت اثر ہوا عصمت بی بی اپنے بیٹوں کو باہر نہیں جانے دیتی تھی حالانکہ اس کے بیٹے جوان تھے مگر وہ پھر بھی نہ جانے دیتی اصل میں عظمت بی بی جب پانچ برس کی تھی تو اس کے والد کو ایک زمین کی لڑائی میں اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا تھا اس بات کو تو بہت وقت گزر چکا تھا مگر پھر بھی اس کے ذہن کو ایسا صدمہ پہنچا تھا جب بھی اس کا کوئی بیٹا ادھر ادھر ہوتا تو وہ بہت پریشان ہو جاتیآخر لاہور کا فیصلہ ہوگیا یہ پاکستان کا شہر بنے گا اور سورسنگ جو کہ انڈیا میں ہی رہے گا اس بات کا عبداللہ  کے خاندان پر بہت اثر ہوا کیونکہ عبداللہ اور عظمت بی بی اپنے گھر کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے آخر وہ اپنے گھر کو چھوڑتے کیسے ان کا گھر بہت ہی بڑا تھا اور پورا ہی سامان سے بھرا ہوا تھا عظمت بھی گجری تھی اس لیے کھیس وغیرہ بنانے کی شوقین تھی وہ ہر سال ہی کھیس بنا لیا کرتی تھی اس وجہ سے ایک پورا کمرہ کیسوں سے بھرا ہوا تھااس دور میں جس گھر میں کنوان ہوتا تھا وہ ایک بہت بڑا گھر تصور کیا جاتا تھا اور محمد عبداللہ  کا گھر بھی ان گھروں میں سے ایک تھا اس گھر کو اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر جانا آسان بات نہیں تھی اور پھر یہ بھی تھا کہ پتہ نہیں جا بھی سکیں گے یا راستے میں ہی قتل کر دیے جائیں گے محمد عبداللہ  کا اکیلا خاندان نہیں تھا اس کے بڑے بھائیوں کا خاندان اور ایک بہن کا خاندان بھی تھا کل ملا کر یہ سارے ڈیڑھ سو لوگ بنتے تھےیہ سارے ڈیڑھ سو لوگ محمد عبداللہ کے والد فخردین کی نسل تھے اور  فخر دین کا کوئی بھائی بہن نہیں تھا اور وہ کئی نسلوں سے ایک خاص قسم کا علم کر رہے تھے اس لیے ان میں سے صرف ایک ہی بیٹا ہوتا تھا فخر دیں  اس علم کے اہل نہ تھا اس لئے فخر دین کے والد یعنی کے عبداللہ کے دادا رحمت علی نے یہ علم فخردین کو نہ سکھایا اس لئے فخر دین کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی چار بیٹوں اور ایک بیٹی کی نسل دیڑھ  سو کے قریب تھی اب انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم سب مل کر پاکستان جائیں گے جب اس بات کی خبر شیری  پہلوان کو ملی تو اس نے کہا کہ میں تم کو چھوڑ کر آو گا اور ان کو اپنے ہمراہ لے کر چل پڑا عبداللہ کے بہت زیادہ جانور تھے جو کہ عبداللہ یہاں پر کسی کے پاس چھوڑ کر جا رہا تھا مگر شیری پہلوان نے اس کے وہ جانور بھی ساتھ بھیجے اور سب کے ساتھ چند معمولی ہتھیار لے کر چل شیری پہلوان قافلے میں آگے تھا تاکہ کوئی حملہ نہ کرے اور اپنی تلوار تھامی ھوئ  تھی جیسے ھی سورسنگ  سے باہر نکلا تو ان پر سکھوں نے حملہ کردیا جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی انہوں نے ش شیری پہلوان  سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاتو ان کو کہاں چھورنے  جا رہا ہے شیری پہلوان نے جواب میں کہا یہ پاکستان جائیں گے میں بھی دیکھوں گا ان کو کون روکے گا اور عبداللہ کو کہہ دیا کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو درمیان میں کر لو اور مرد گول دائرہ بنا لے شیری نے کہا پہلے میں مروں گا پھر کوئی اور مرے گا لڑائی ہونے ہی لگی تھی کہ شیری نے سوچا اگر لڑائی ہوگئی تو سب مر جائیں گے اس بات کا کوئی فائدہ نہیں شیری پہلوان سیاست بھی جانتا تھا اس نے سیاست کھیلی اور سکھوں کو جا کر کہا میری بات سنو بیشک ان کو مار دو میرے کیا لگتے ہیں مگر ان کے پاس بہت اسلحہ اگر تم ان کے ڈیڑھ سو بندہ مارو گے تو یہ بھی تمہارا تیں سو  تو لازمی مار دیں گے تم ان کو میری آنکھوں کے سامنے نہ مارو میں ان کو قصور کے باڈر پر بھیج دیتا ہوں وہاں پر جاکر ان کو ماردو اور کچھ اسلحہ  بھی زیادہ ساتھ لے جانا شیریں کی اس بات نے سکھوں کو متاثر کیا وہ چلاے گے قصور کے بارڈر پر اور ادھر آکر اس نے عبداللہ کو کہا ان کو میں نے قصور کے باڈر پر بھیج دیا ہے تم لوگ لاہور کے بارڈر پر چلے جاؤ عبداللہ شیری کے گلے ملا وہ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے عبداللہ اور اس کے خاندان لاہور کے بارڈر سے پاکستان  آگئے عبداللہ جب تک زندہ رہا اپنے  دوست شیری  پہلوان کی کہانیاں اپنی پوتے پوتیوں کو سناتا رھا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :