سعادت حسن اور منٹو

جمعرات 7 جنوری 2021

Hamza Safdar

حمزہ صفدر

منٹو ایک حقیقت ہے منٹو ایک سچ ہے منٹو کوئی انسان نہیں منٹو ایک کوھٹا ہے ۔ایک حرا مندی کا کوھٹا ۔ ایک ایسا کوھٹا جہاں پر رنڈی  ملتی ہے ۔ منٹو ایک کوھٹا ہے اور رنڈی اس کی تحریرں ہے ، جو تحریرں معاشرے کی ضرورت بھی اور ننگے معاشرے کو  آئینہ بھی دکھاتی ہیں وہی ننگا معاشرہ جس کو ان تحریروں کی ضرورت ہے وہ ان تحریروں کو پڑھتا بھی ہے اور ان کو برا بھی کہتا ہے بلکل اسی طرح جیسے رنڈی کے پاس بھی جاتا ہے اور اس کو برا بھی کہتا ہے ضرورت پڑھنے پر انہی تحریروں کا سہارا لیتا ہے جن کو فحاش بولتا ہے اس کوھٹے کو بنانے والا سعادت حسن تو مر گیا مگر اس کی رنڈیا مطلب اس کی تحریرں رہتی دنیا تک باقی رہے گی ۔

(جاری ہے)

مگر اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ منٹو مر گیا تو وہ جھوٹ بولتا ہے سعادت حسن مرا ہے منٹو ابھی بھی زندہ ہے
سعادت حسن منٹو نے خود بھی لکھا تھا
ہو سکتا ہے سعادت حسن مر جاۓ اور منٹو نہ مرے
اب یہ معاشرہ جس نے سعادت حسن کو جینے نہ دیا اب وہ منٹو کو مرنے نہیں دیتا جب سعادت حسن بھی زندہ تھا تو اس پر اور منٹو پر مقدمہ کیے گۓ اصل میں وہ مقدمہ تو سعادت حسن پر کیے گۓ تھے مگر منٹو ہم زات ہونے کی وجہ سے اس مقدموں کی زد میں آ گیا جب سعادت حسن زندہ تھا تو نہ ہی اس کو انڈیا میں جینے دیا گیا اور نہ ہی پاکستان میں جینے دیا مگر جب سعادت حسن مر گیا تو اس کو بعدازمرگ آواڈ سے نوازا جانے لگا اس کے نام کی تختیان لگا کر اپنے قد اونچے کیے جانے لگے وہی دو ملک انڈیا اور پاکستان جینوں نے سعادت حسن کو جینے نہ دیا اب ایسی سعادت حسن منٹو پر فلمیں بنا کر شعورت حاصل کر رہے ہیں مجھے پورا یقین ہے اگر ابھی بھی کسی شخص کے اندر منٹو آ جاۓ تو اس شخص کو معاشرہ قتل کر دے گا جیسے سعادت حسن کو معاشرے نے قتل کر دیا تھا
جی ہاں صحیح سنا سعادت حسن مر نہیں تھا اس کو اس ننگے معاشرے نے قتل کیا تھا اور اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے ہر چیز پر لکھا تھا ہر شخص پر لکھا تھا مولوی پر لکھا تھا شریف آدمی پر لکھا تھا بدمعاش پر لکھا تھا رنڈی پر لکھا تھا اگر رنڈی اتنی بری ہے تو اس کو پیدا بھی تو ہماری ہی معاشرہ کرتا ہے کوئی عورت خوشی سے اپنا جسم نہیں بچتی؛ کوئی اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہے کوئی ایک چھت کے لئے رنڈی بنتی ہے جیسے کے منٹو نے بہت درست کہا ہے  
'میرے معاشرے کے شریفوں کو میرے معاشرہ کی رنڈی سے بہتر کوئی نہیں جانتا '
معاشرے اور حکمرانوں نے جب بھی کوشش  کی ہے رنڈی کے کوٹھے کو ختم کرنے کی کی ہے مگر رنڈی کو خریدنے والے شریف آدمی کو ختم کرنے کی نہیں کی اسی طرح جب بھی منٹو کی تحریروں کو روکنے کی کوشش کی گئی  مگر اس معاشرے کو صحیح کرنے کی نہیں کی گئی افسوس  اس بات کا بھی ہے کہ اس منٹو کو کومنیسٹ کہا جاتا تھا جو اپنی ہر تحریر کا آغاز بسم اللہ یعنی کے 786 سے کرتا تھا 786 سے آغاز کرنے والا شخص کبھی کومنیسٹ نہیں ہو سکتا اور اس کی جن تحریروں پر مقدمہ ہوئے تھے کیا وہ سچ نہیں تھی ؟ کیا ایسے لوگ  ہمارے معاشرے میں موجود نہیں ہے جو اس کی تحریروں کے کردار  تھے افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ اس پر یہ مقدمہ  کیا گیا تھا کہ اس نے اپنے افسانے ٹھنڈا گوشت میں گالیاں استعمال کی ہیں جنسی  رشتے کے بارے میں لکھا ہے مگر معاشرے کو یہ نظر نہ آیا یا معاشرے نے یہ دیکھنا نہ چاہا کہ اس کے افسانہ کا کردار  سورسنگ جیسا بھی تھا قاتل تھا زنی تھا برا انسان تھا مگر اس کے اندر کی انسانیت ابھی بھی زندہ تھی جب اس نے کسی ٹھنڈے گوشت پر اپنی جنسی خواہش پوری کی مگر جب اس کو اس بات کا پتا چلا کہ وہ ٹھنڈا گوشت ایک مردہ گوشت ہے تو اس نے اپنے آپ کو ایک ٹھنڈے گوشت میں تبدیل کر لیا.
 اصل میں معاشرے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو ہر وہ چیز نظر آتی ہے جس کو وہ برے طریقے سے پھیلا سکے نہ کہ وہ چیز جو اس کے پیچھے کی اچھائی ہے
 اگر یہی منٹو مغرب میں پیدا ہوا ہوتا اور اس نے یہی سب مغرب میں لکھا ہوتا تو یقینن اس کو مغربی ادب میں ایک اعلی مقام  دیا جاتا
منٹو کا جب دل جلتا تھا
 تو اس کا قلم چلتا تھا
 جب قلم چلتا تھا
 تو معاشرہ آنکھیں ملتا تھا
تحریروں سے حیوانیت کا پہلو جھلکتا تھا
 پڑھ کر انسانیت کی آنکھوں کا دریا ابلتا تھا
اندر کا کولیا سلگتا تھا
 جذبات کا ماتم ہوتا تھا
معاشرہ کا جنارہ نکلتا تھا
حقیقت کا چپ رہنا بولتا تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :