قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے

جمعہ 27 نومبر 2020

Hassaan Shah

حسان شاہ

جب سے کائناتِ انسانی نے وجود کی خلعت پہنی ہے علم و فن کا چراغ وہیں سے روشن ہوگیا اس کے برعکس صنفِ مخالف، جہالت، غرورو تکبر اور ظلم و ستم نے بھی تقریباً اسی وقت آنکھ کھولی لیکن اِن سب کے باوجود کوئ نہ کوئ علم پروانہ اسے اپنی پرواز کا بہانہ بنا کر آگے بڑھا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔ جب کہ تلوار تاریخِ حیات میں جب بھی چمکی  اور جس انداز سے چمکی سامانِ ہلاکت بنی، چیخوں اور آہوں کے سوا اِس کی وراثت اور ہے بھی کیا، محبت اور الفت تو اِس کی لغت میں شامل ہی نہیں۔

جبکہ علم و فضل کا علمبردار قلم اگرچہ کبھی کبھی منفی کردار بھی ادا کرتا رہا ہے لیکن اِس کا اکثر استعمال تجسس، تعلیم و ترقی، عروج و پزیرائ  اور محبت و الفت کے لئے ہوا ہے ۔اِس دنیا کے عظیم لوگوں نے بھی محبت کو فاتح عالم قرار دیا تلوار کو نہیں۔

(جاری ہے)

میں مانتا ہوں کہ تلوار فاتحین کا زیور،بہادروں کا جوہر اور جرأت و ہمت کا نشان ہے۔ لیکن میرے چشمِ تصور سے یہ حقیقت ایک لمحے کے لئےبھی  اوجھل نہ ہو پائ   کہ تلوار کے سامنے جھکا ہوا سر دب تو گیا اور کٹ بھی گیا لیکن تسلیم کی خو سے آشنا نہ ہوا اور جب بھی موقع ملا اپنی ہزیمت اور شکست کا بدلا لینے کے لئے اٹھا تو قیامت تک ڈھا گیا اور فضا ہر دم مغموم ہوئ، ماحول سوگوار ہوا۔

مگر قلم کے حضور جھکا ہوا سر ایسا سر نگوں کوا کہ پھر سر نگوں ہی رہا۔  یہ قلم ہی تھا جِس نے اِن شمشیر زنوں کے واقعات کو قلم بند کیا اور رہتی دُنیا تک نوعِ انسانی کو پیغام دیا کہ تلوار جہاں سر کاٹنے میں مصروف تھی وہیں قلم اُس کو سیاہی کا لبادہ پہنا رہا تھا۔ تلوار صرف تلوار ہے، قلم قلم بھی ہے اور تلوار بھی، تلوار صرف ظلم و بربریت ہے، قلم ظلم و بربریت بھی ہے اور امن آشتی کا پیغام بھی، تلوار صرف نفرتوں سے عبارت ہے،قلم نفرت بھی پھیلاتا ہے اور محبت کے زمرے بھی بہاتا ہے، تلوار صرف جوش ہے، قلم جوش بھی ہے اور ہوش بھی، تلوار کا کام صرف کاٹنا ہے، قلم کاٹتا بھی ہے اور کٹے ہوۓ کو جوڑتا بھی ہے، تلوار صرف ماضی ہے، قلم ماضی بھی حال بھی اور مستقبل بھی ہے، تلوار استعمال میں عصرِ حاضر میں فخر کم ندامت زیادہ ہے جبکہ قلم کے استعمال میں ندامت کم فخر زیادہ ہے، تاتاریوں نے اپنی تلوار سے اسلامی تہذیب و تمدُن کی قلم سے روشن کی ہوئ شمعوں کو گُل کرنے کی کوشش کی ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے، دریاۓ دجلہ کا پانی تین دن تک سرخ رہا اور تلوار کے کردار کا ماتم کرتا رہا۔

فلسطین میں اسرائیل ظلم کی نئی تاریخ رقم کررہا ہے، غزا میں مسلمانوں کی خون ریزی عروج پر ہے، برما میں نسل کشی کی جارہی ہے، کشمیر میں بھارت خناس بنا ہوا ہے یہ سب تلوار کے ہی جدید روپ ہیں۔ نفرتوں کے شعلے بھڑکاۓ گئے اور امت کو گروہوں میں تقسیم کردیا سب کارنامے تلوار نے سر انجام دیے۔ آج کے دور میں تلوار ہو یا ٹینک، میزائل یو یا لڑاکا طیارے سب بذاتِ خود قلم کی محتاج ہیں۔

قلم کے بغیر ان کا نقشہ انکی بناوٹ اور ان کا استعمال ممکن ہی نہیں۔ زندگی کے ہر میدان میں حملہ ہویا دفاع قلم کے بغیر کوئ ہتھیار کام نہیں آسکا،جہاں جہاں جنگ کا میدان سر گرم ہوا قلم کے بلبوتے پر ہی مصالحت ہوئ، ماضی میں تلوار کو ظلم و جبر کے خلاف اٹھایا گیا اور بامراد ہوۓ مگر آج جس قریہ میں بھی تلوار چمکی وہاں خون کی ندیاں بہہ گئیں ظالم کی لاکھ کاوشوں کے بعد بھی خوداردیت خم نہ ہوئ ظالموں نے تلوار کو قلم پر ترجیح دی اور دنیا نے دیکھا کہ رسوائ اُنکا مقدر بنی۔

عصرِ حاضر میں اگر کوئ جرأت کر کے قلم کے زور پر انقلاب لانا چاہے تو تلوار کے زور پر اُس کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اِس بے جا تلوار کے استعمال سے قلم کی اہمیت پھیکی پڑ گئ اب وہ زور اور چاشنی قلم میں نہیں رہی ہمیشہ تلوار کی نوک اور قلم کی نوک میں اختلافات ہی رہے۔ تلوار جب بھی  چلی اور خون سے سنی انقلاب کی صدا کو تو دبا گئ لیکن اُن انقلابیوں کے لکھے وہے مجموعے کو نہ دبا سکی ظالموں کے جبر کو قلم نے روند ڈالا اور رہتی دُنیا تک پیغام چھوڑ دیا کہ قلم تلوار سے کہیں گنا طاقتور بھی ہے اور اثر انداذ بھی۔

اگر ہم غورو فکر کریں تو ہمارے کتنے سماجی، معاشرتی، سفارتی اور دفاعی معاملات بذریعہ قلم خوش اسلوبی سے حل کو سکتے ہیں جدید دور کی تلواروں کے ساتھ یہ سارے معاملات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں جس کے سنگین نتائج ہوں گے مگر افسوس ہم تلوار کو ہی اہمیت دیں گے اور آخر میں قلم پھر وہی کہانی دھراۓ گا اور سب حالات و واقعات کو اپنی سیاہی میں پروۓ گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :