میرے پاس تم ہو

جمعہ 24 جنوری 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

ایک معروف نیوز گروپ کے ڈرامے ”میرے پاس تم ہو“ کی آخری قسط کا سب کو ہی انتظار ہے۔ لوگوں نے سینما گھروں میں ایڈوانس بکنگ تک کروالی ہے۔ ساری نظریں اس ڈرامے کے تخلیق کار خلیل الرحمن قمر کی جانب ہیں کہ آخر عورت کا بدنما چہرہ دکھاکر، عورت کی بے وفائی دکھاکر اب اس کا اختتام کیسے کریں گے؟ مہوش کو سزا کیا ملے گی؟ دانش کے دکھوں کا مداوا کیا ہوگا؟ شہوار کی زندگی کیسے گزرے گی؟ اس کا انجام کیا ہوگا؟ ماہم کے انتقام کی آگ کیسے بجھے گی؟ کیا شہوار کو اپنے ماضی کا کوئی دُکھ ہوگا؟ کوئی ملال ہوگا؟
مہوش کو بے وفائی کرکے اب ملال ہے۔

وہ ہر پل جی رہی ہے، ہر پل مررہی ہے۔ اپنے گناہوں اور زیادتیوں نے اسے بے چین کررکھا ہے۔ مگر شہوار نے بھی تو بے وفائی کی۔

(جاری ہے)

نہ صرف ماہم سے بلکہ مہوش سے بھی۔ وہ پھر بھی قدرے مطمئن ہے۔ادھر لاہور کی سول کورٹ میں اس ڈرامہ سیریل کے خلاف ایک خاتون ماہم نے درخواست  دائر کر رکھی ہے جسکی سماعت پر عدالت آج ڈرامہ کے پروڈیوسر سمیت 5 افراد کو طلب کررکھا ہے، بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے!
خیر شاید یہی فرق ہے عورت اور مرد کا۔

کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ عورت بے وفا نہیں ہوتی۔ عورت بھی بے وفا ہوسکتی ہے۔ عورت بھی مجرم ہوسکتی ہے۔ عورت بھی گنہگار ہوسکتی ہے۔ پر یہ معاشرہ اسے اچھے سے سبق سکھاتا ہے۔ اس کے ہر گناہ کی اسے دُگنی سزا دی جاتی ہے۔ اسے ان گناہوں کا بھی حساب چکانا پڑتا ہے جو اس نے نہیں کیے ہوتے۔ اسے وہ قرض بھی چکانا پڑتے ہیں جو واجب بھی نہیں ہوتے۔
ارے جناب! آپ بے وفائی کی بات کرتے ہیں۔

عورت کو تو محبت کرنے پر بھی سزا ملتی ہے۔ عورت کے کسی کو پسند کرنے کو بھی گناہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ کسی سے شادی کا خواب بھی دیکھ لے اور زبان پر یہ بات لے آئے تو قتل ہوجاتی ہے۔ اس پر زندگی تنگ کردی جاتی ہے۔ ”کیا بے شرم زمانہ آگیا ہے۔“ ”اب بڑوں کے سامنے اپنی شادی کی باتیں کرنے لگی ہو۔“ ”ہم مرکیوں نہیں گئے ایسی بے شرمی کی باتیں سن کر“۔

یہ ساری باتیں اس معاشرے میں کی جاتی ہیں جہاں کے 90 فیصد سے زیادہ مسلمان کہلائے جاتے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے لڑکی کو مکمل حق دے رکھا ہے کہ وہ جسے اور جہاں چاہے اپنی شادی کا فیصلہ کرے۔
آپ بے وفائی کا رونا رو رہے ہیں، عورت کو تو محبت کے بارے میں سوچنے کی بھی سزا مل جاتی ہے اور اسے سنگسار کردیا جاتا ہے۔ بے وفائی کی سزا تو ملے گی اور ملنی بھی چاہیے۔

یہاں تو محبت کے نام پر بھی عورتوں کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ کتنی ہی عورتیں ہیں جو محبت کے نام پر رسوا ہوئیں۔ کتنی ہی داستانیں ہیں، وہ جس کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑا، اپنے ماں باپ کو چھوڑا، بہن بھائیوں کو چھوڑا۔ مگر جس کی خاطر چھوڑا، اسی نے آدھے راستے میں اسے چھوڑدیا۔ دین کے نام لیوا بھی اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، دنیا والے بھی اسے تماشا بنانے کو اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں۔

وہ جہاں جاتی ہے، کہا جاتا ہے دیکھ لو یہ عورت۔ اس کا انجام دیکھ لو۔ اور وہ واقعی دنیا کے لیے عبرت کا نشان بن جاتی ہے۔ پھر نہ اپنے اسے قبول کرتے ہیں نہ وہ کم ظرف جس سے اس نے محبت کی۔
خلیل الرحمن قمر صاحب کہتے ہیں کہ مرد کو بھیڑیا جانور دکھایا جارہا تھا، اس لیے انہوں نے یہ ڈرامہ بنایا اور عورت کا دوسرا روپ بھی دکھادیا۔ مان لیتے ہیں کہ جو لوگ مرد کو بھیڑیا یا جانور سمجھتے ہیں، وہ غلط کررہے ہیں، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ صرف مرد کو مظلوم دکھانے کے لیے عورت کو بے وفا اور ظالم قرار دینا اور حقائق کو مسخ کرنا ناانصافی نہیں؟ اس کے دُکھوں میں ایک اور دُکھ کا اضافہ کرنا کیا تخلیق کار کے لیے مناسب ہے؟ میرا سوال یہ بھی ہے کہ مرد اتنا ہی مظلوم ہے تو بتائیے کتنے مرد سنگسار ہوئے؟ محبت یا بے وفائی کرنے پر، کتنے مردوں سے جینے کا حق چھینا گیا؟ کتنے مردوں کی آبرو ریزی کی گئی؟
یہاں تحریر کا مقصد مرد کو عورت پر یا عورت کو مرد پر فضیلت دینا ہر گز نہیں ہے۔

اس کا مقصد تھا کہ فقط ایک ڈرامہ سے آپ یہ تعین نہیں کرسکتے کہ صرف عورت ہی دھوکہ باز ہوتی ہے۔ مرد دھوکے دے کر بھی  سوسائٹی میں جی سکتا ہے مگر عورت کے لیے نا معاشرہ میں جگہ ہے نا دین میں اور نا ہی خاندان میں! میرے خیال میں شادی شدہ عورت بلخصوص محبت شدہ شادی یافتہ عورت کو بے وفائی پر ہر گز معافی نہیں ملنی چاہئیے! مگر اگر کوئی  لڑکی آپ سے محبت میں وفا نہیں کر پاتی تو اس میں والدین، معاشرے کا بھرپور دباؤ ہوتا ہے جس کا اوپر ذکر کرچکا۔

حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوے اسی conclusion پر پہنچا ہوں کہ فقط ایک ڈرامہ سیریل دیکھنے سے ساری خواتین و لڑکیوں کو دھوکے باز و بے وفا نہیں سمجھنا چاہئیے اور نا صرف ایک ڈرامہ سیریل سے اپنے ذہنوں میں اس بات کو ڈال لینا چاہئیے کہ عورت ذات نام ہی دھوکہ و فریبی کا ہے! اگر اس سے ذہن اس طرف مائل ھوے تو معاشرہ تباہی و بربادی کی جانب بڑھے گا اور ہر شخص اپنی بیوی کو دھوکے بازوں کی نظر سے دیکھے گا اور انتشار پھیلے گا۔اس ڈرامہ سے نا صرف عورت بلکہ مرد ذات کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہئیے اور وفا کا پیکر بننا چاہئیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :