کوئی ہے جو روکے اِن کو

منگل 24 نومبر 2020

Hassaan Shah

حسان شاہ

میرا تعلق ارض وطن کے اُس شہر سے ہےجہاں فوج کا سپہ سالار اور ملک کا سربراہ ہمہ وقت موجود رہتے ہیں، جی ہاں۔ راولپنڈی اسلام آباد جہاں ہر جانب پولیس اور پاک فوج کی نقل و حرکت جاری رہتی ہے۔ جابجا سیکیورٹی چیک پوسٹیں موجود ہیں، شہر بھر میں قانون نافد کرنے والے ادارے گشت کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا حساس شہر جہاں ملک کے محافظ ہر وقت چوکنا رہتے ہیں۔

اور حال ہی میں اِس ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا اعادہ کیا گیا، جہاں قانون کی بالادستی ہوگی، غریب کو حق ملے گا، ناجائز فروش اپنے انجام کو پہنچیں گے، پولیس کا نظام مثالی ہوگا، جہاں ہر شخص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاۓ گا، عورت ذات کی تکریم و تعظیم ہوگی انہیں یکساں حقوق ملیں گے اور ہر شخص کو سربراہ سے سوال و تکرار کی اجازت ہوگی۔

(جاری ہے)

ایسے ہی اقدامات کو بروۓ کار لاتے ہوۓ جناب وزیر اعظم عمران خان نے ایک ایسا نظام تشکیل دیا جو اس سے پہلے کبھی وجود میں نہیں آیا تھا، اور اِس نظام کا نام رکھا گیا وزیر اعظم پورٹل۔

جہاں ہر شہری بذریعہ انٹرنیٹ اپنی شکایات درج کروا سکتا ہے چاہے وہ حکومتی اداروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں، ہر شکایت کا ازالہ کیا جاۓ گا اور اس کی یقین دہانی خود وزیر اعظم صاحب نے دی۔
اب بھلا ایسا کہاں ممکن ہوتا ہے برسوں پرانے بد حالی نظام کو یک دم کیسے درست  کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کو ریاست مدینہ کا عملی جامہ پہنانا کہاں اتنا آسان ہے، کس کس ادارے کو دیکھے کو گےآپ، یہاں تو ہر ادارہ ہی اپنی مثل آپ ہے۔

اب چاہے وہ آپ نے بنایا ہو یا آپ کو ورثے میں ملا ہو۔اتنے زیادہ اقدامات اور قانون نافد کرنے والے ارادے ہونے کے باوجود کچھ لوگ آج بھی سرعام راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں میں زہر کی بوتلیں بیچنے میں مصروف ہیں۔ اور زہر کو شراب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ روز دیکھتا ہوں کچھ لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے شراب فروشی کررہے ہیں، برسربازار اس کو بیچا جا رہا ہےجیسے کانچ کی بوتل میں شہد دے رہے ہوں۔

حکومتی اداروں کی منہ پر زور دار تمانچہ ہے جو کہتے ہیں اب حرام پکڑ میں آۓ گا ہم سب مل کر اسکی روک تھام کریں گے، آپ ہمیں بتائیں ہم ان کو قانون کے مطابق سزا دیں گے۔ ویسے دل کو لبھانے کا یہ طریقہ اور جملے بہت ہی اچھے ہیں۔ بحیثت مسلمان اور ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے میرا فرض تھا کے میں برائ کو ہوتے دیکھوں تو اس کو روکنے کی کوشش کروں کیونکہ یہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیؐ کا حکم ہے، لہذا اس حکم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ میں نے وزیر اعظم پورٹل پر ایک شکایت درج کردی ساتھ ہی ساتھ اینٹی نارکوٹکس کو بھی اس اے آگاہ کردیا۔

اب بہت مطمئن تھا کہ شاید اب یہ درندے جو لوگوں کے گھروں میں ایندھن ڈال رہے ہیں اب قانون کی گرفت میں ہونگے، ایک دو دن بعد ہی پیغام موصول ہوا کہ میری درج شکایت آئ جی پنجاب نے پڑھ لی ہی اوراس شکایت کو آر پی او کو بھیجی جاۓ گی۔ اور کرت کرتے میری شکایت ایس پی راول تک جا پہنچی اس اب میں ایک ہفتہ لگ گی، خیر مجھے کال آئ کہ جناب میں ایس پی راول آفس راولپنڈی سے مخاطب ہوں آپ نے ایک شکایت درج کی جو ہمیں مخلتف مراحل سے گزرنے کے بعد موصول ہوئ لہذا آپ ذاتی حیثیت میں ایس پی راول کے سامنے پیش ہوں تاکہ کاروائ آگے بڑھائ جا سکے۔

اگلے ہی دن میں ایس پی آفس راجہ بازار جا پہنچا اور اُس کال آپریٹر سے ملاقات کی اُس نے یقین دہانی کروائ شاہ صاحب بے دکر ہوجائیں یہ ہمارا کام ہے ہم ایکشن لیں گے میری شکایت میں ان شراب فروشوں کے خلاف ساری معلومات تھیں حتی کہ اُن کے گھر کی نشان دہی بھی کروادی،پولیس افسر نے ایک بیان لکھا جس میں تحریر تھا میں فلاں بن فلاں آج ذاتی حیثیت میں پیش ہوا اور پولیس کی کاروائ سے مطمئن ہوں پھر اس ہر پنجاب پولیس کی مہر ثبت کی گئ اور میں نے دستخط کر دیے۔

کچھ ہی دیر میں بلاوا آیا جناب ایس پی صاحب یاد فرما رہے ہیں۔
ایک کشادہ اور انتہائ ٹھنڈے کمرے میں داخل ہوا ایس پی صاحب نے چاۓ کا پوچھا لیکن اُس وقت چاۓ کی کوئ خاص طلب نہیں تھی۔ پھر ایس پی صاحب مخاطب ہوۓ کہ واقعی آپ نے بہادری کا مظاہرہ پیش کیا ہے اور منشیات فروشوں کی خبر ہم تک پہنچائ میں آپکی اس بہادری کا قائل ہوں ہمیں بہت خوشی ہوئ آپ سے مل کر اور ساتھ ہی کہا کہ ہم بروقت ایکشن لیں گےاور دوسرے پولیس افسر کو کہا کہ آپ کاروائ عمل لائیں۔

آفس سے باہر آنے کے بعد پولیس افسر نے فون گھمایا اور تھانہ وارث خان کو کہا کہ ایک اسپیشل برانچ کو لیٹر لکھیں تاکہ وہ ٹیم تشکیل دیں اور منشیات فروشوں کی گرفت ہو۔ ایس پی آفس میں موجود پولیس افسران نے کہا اب آپکی تشریف آوری کا شکریہ بہت جلد ان کی خلاف کاروئ ہوگی، اُس دن سے لے کر آج تک وہ درندے شہر بھر میں بغیر کسی خوف کہ اپنے کام میں مصروف عمل ہیں اور پولیس اتنے عرصے میں کوئ خاطر خواہ کاروائ نہ کر سکی سواۓ تحریر پر دستخط کروانے کے اور تسلیوں کے۔

کئ بار رابطہ کیا ان س پولیس افسران سے جواب ہمیشہ یہ ہی ملا فکر نہ کریں آپ کاروائ ہوگی یہ کام اتنا آسان نہیں ہوتا ان سب میں وقت لگتا ہے آپ بے فکر ہوجائیں یہ ہمارا پولیس کا کام ہے۔ اور آج تک کوئ ایکشن نہ لیا جاسکا وہ منشیات فروش روز کسی نہ کسی گھر میں فساد ڈلوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہیں ان کی وجہ سے چوراہے پر کسی نوجوان لڑکی کی عصمت کو ٹھیس پہنچائ جاتی ہے تو کہیں پورا علاقہ آباؤ اجداد کی گالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔

کون ہے جو روکے اس کو آخر ان کو لگام کون ڈالے گا کب تک یوں ہی یہ نشے میں سرمست لوگ دوسروں کی زندگیوں سے کھیلیں گے بظاہر ایٹی نارکوٹکس کے زیر نگران ایسے کیسسز ہوتے ہیں لیکن وہ تو شاید ایسی چھوٹی چھوٹی شکایتوں کو کوئ اہمیت ہی نہیں دیتے انہیں تو من دو من چرس کی تلاش رہتی ہے اور ساری کاروائیاں مسافر طیاروں تک رکھی ہوئ ہیں۔ جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب صرف اتنا بتا دیں کہ ریاست مدینہ میں شراب بیچنے پر کوئ پابندی نہیں ہوگی یا آپ کی بنائ ہوئ ریاست مدینہ میں شراب فروشی کی اجازت ہوگی۔

آپ کی حکومت کے سادے دعوے دھرے کے دھرے رہ گۓ، یہ پولیس کا شعبہ آپ کے زیر نگران ہے اور اسی شعبے کا یہ حال ہے تو خدا جانے ریاست کا کیا حال ہو گا آپ کی تو قول و فعل دونوں میں تضاد ہے خو آپ کے ادارے آپکی بات پر عمل نہیں کرتے تو عام عوام سے آپ کیا مید رکھتے ہیں۔ یہ شکایت صرف میری نہیں ہر اُس کی باسی کی جہاں اِس نجس چیز سے فساد برپا ہوتا،یہ شکایت اُس نوجوان لڑکی کی ہے جسے شراب فروش اور شراب خور حوس بھر نگاہوں سے دیکھتے ہیں اب دوسروں کی ماں بہنیں تو تھانے کے چکر لگانے سے رہیں کیونکہ وہاں جا کر کونسا اُنہیں تحفظ مل جاۓ الٹا کوئ اور افسانہ ان کے ساتھ باندھ دیا جاۓگا لہذا جناب عمران خان صاحب اپنی چارپائ کے نیچے ڈنڈا گھمائیں اور دیکھیں کون آپ کی فیصلے اور سسٹم کے خلاف ہے اگر یہ سب ممکن نہ ہوتو اپنے آپ کو مدینہ کی ریاست کو سربراہ نہ کہلوائیں کیونکہ اُس ریاست کے تمام سربراہان جرم کو روکنے خود میدان میں آتے تھے کیونکہ آپ ہی اِن کو روک سکتے ہیں عام عوام نہیں۔

  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :