مانوس آہٹ

بدھ 15 اپریل 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

وہی مانوس سی آہٹ... وہی آشنا سی چاپ جو آفت زدہ لیل ونہار میں آپ کی سمع خراشی کرتی ہے، پھر آپ کی سماعتوں سے ٹکرانے لگی ہے۔آپ کی سماعتوں کے لیے”خراشی“کا لفظ استعمال کرنے کی جسارت محض اس بنا پر کی گئی ہے کہ میں نے کئی چہروں کو اس سوال کی چاپ پر بگڑتے دیکھا ہے۔میں نے کتنے ہی لوگوں کو اس التجا کی آہٹ پر منہ بسورتے دیکھا ہے کہ آخر ہر بار ایک ہی سوال کیوں کیا جاتا ہے؟ میں نے کتنے ہی حسّاس اور فراخ دل لوگوں کے مزاج اور طبیعت پر اس سوال کو گراں گزرتے دیکھا ہے۔

اب پھر وہی آہٹ اور وہی چاپ آپ کی توجہ چاہتی ہے۔
کورونا ہماری جان کا عذاب بن چکا ہے۔کتنے ہی زرخیز اور ہرے بھرے سپنوں کو اس نے بنجر کر کے رکھ دیا ہے۔کتنی ہی کہانیاں ادھوری رہ گئیں، کتنی ہی دھنک رنگ خواہشوں کو یہ مہلک وائرس چاٹ چکا ہے۔

(جاری ہے)

یہ دنیا اچانک ہی کیا سے کیا ہو کر رہ گئی ہے؟ بھیانک اداسیاں اچانک ہی دنیا کو اپنے حصار میں لے چکیں۔

اللہ سب کے گھروں کو شاد آباد رکھے اور منزلِ مراد بنائے مگر آپ محض چند ثانیوں کے لیے اس درد کی گہرائی کا اندازہ کریں کہ جن کے پیارے اور راج دلارے اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے۔
اس کی تصویر کی طرف دیکھا
آنکھ رنگوں سے بھر گئی میری
یہ وبا بہت جلد ٹل جائے گی(ان شائاللہ) مگر فی الحال ان بیمار لوگوں کی آنکھوں میں بسے خواب آنسوؤں کی جھڑی میں بہ رہے ہیں۔

ایسے ہی درد اور کرب میں وہ غربت کے مارے لوگ بھی مبتلا ہیں جو گھر میں مقیّد ہو کر رہ گئے ہیں۔ان دیہاڑی دار لوگوں کے تن من میں وہ موجِ طمانیت ہی نہ رہی جو چند روز قبل تک ان کی زندگیوں میں گُھلی تھی۔مانا کہ غریب لوگ بڑے ہی دریا دل ہوتے ہیں، تسلیم کہ جو کچّے گھروں کے مکین ہوتے ہیں، ان کے دل بڑے ہی پکّے ہوتے ہیں مگر آج یہ غریب طبقہ بے بسی اور بے چارگی کے ایسے حصار میں پھنس چکا ہے جس نے اُن کی سادہ ورنگین زندگی کو سنگین بنا کر رکھ دیا ہے۔

بہت سے سفید پوش ایسے بھی تو ہیں جو کسی سے سوال تک کرنا معیوب گردانتے ہیں کہ کسی سے مانگنا”خودی“ اور”انا“ کو بُری طرح بھنبوڑ ڈالتا ہے۔
تُو کسی در پہ گیا ہو تو خبر ہو تجھ کو
کس قدر کارِ اذیت ہے سوالی ہونا
لاریب غریب لوگوں کے حوصلے مضبوط تر ہوتے ہیں مگر اُن کے دردوالم کو بانٹنا ہماری بھی تو ذمہ داری ہے۔

اگر ہم جسدِ واحد کی محض کھوکھلی باتیں نہیں کرتے۔اگر ہم دو قومی نظریے کی من موہنی باتوں پر ہی اکتفا نہیں کرتے، اگر ہم نیل کے ساحل سے لے تا بہ خاکِ کاشغر تک ملتِ اسلامیہ کے ایک ہونے اور سمجھنے کی بات کو محض شعر گوئی تک محدود نہیں سمجھتے، اگر واقعی ہم کلمے اور اسلام کے سب سے مضبوط اور توانا رشتے میں بندھے ہیں تو پھر ان بے کسوں اور درد کے ماروں کی آنکھوں سے بہتے کچھ آنسو بانٹ کر اپنی آنکھوں میں سجا لیں، اگر عالم گیر اخوت اور بھائی چارے کی ہماری بات میں دم خم ہے تو آئیں! ان بے بسوں کے دل کے روگ اور سوگ کا کچھ حصّہ ہم اپنے دلوں کی زینت بنا لیں، اگر ہم صلہ رحمی کی تعلیم اور تدریس کی حقیقی لذتوں سے آشنا ہیں تو ان بے چاروں کے چہروں پر بسے المیوں کے غازے کا خفیف سا حصّہ ہی اپنے چہروں پر سجا لیں، اگر واقعی ہم رشتہ ء اسلام کی تقدیس کے گُن گاتے ہیں تو پھر ان حرماں نصیبوں کے دامن میں بھرے کرب کا کچھ حصّہ اپنی جھولی میں بھر لیں، اگر ہم ایسا کر لیتے ہیں تو حقیقت میں انسانیت ہمارے اندر موجود ہے، بہ صورت دیگر تو سب باتیں عبث اور رائگاں ہی ہیں۔

میں دادوتحسین پیش کرتا ہوں ان لوگوں کو جو دکھیاروں کے کرب کی کسک کو محسوس کر کے راشن اُن کے گھروں کے باہر رکھ کر چلے جاتے ہیں۔ایمان وایقان کی چاشنی میں گُندھے اُن افراد کو میں سلام پیش کرتا ہوں جو رات کی تاریکی میں کھانے پینے کی اشیا مفلوک الحال لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔میں ہدیہ ء تبریک پیش کرتا ہوں اُن عظیم لوگوں کو جو اپنی جانیں جوکھوں میں ڈال کر ستم زدوں کی مدد کر رہے ہیں۔

لیکن اس کام کے لیے محض چند لوگوں کا متحرک ہو جانا ہی کفایت نہیں کرتا۔اس کام کے لیے ہمیں من حیث القوم حرکت میں آنا ہو گا۔نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیثِ مبارک ہر صاحبِ علم جانتا ہے جو صحیح مسلم میں موجود ہے”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ فرمائے گا اے ابنِ آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تُو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔

بندہ کہے گا اے اللہ! تُو ربّ العالمین ہے، میں تجھے کیسے کھانا کِھلا سکتا تھا؟ اللہ فرمائے گا کہ تجھے معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا ہے، اگر تُو اسے کھانا کھلاتا تو مجھے اُس کے پاس پاتا“
اس طرح کی درجنوں احادیث ایسی ہیں جن میں انسانیت کی خدمت کا حکم موجود ہے۔آپ آسودہ حال ہیں، آپ کے آنگنوں میں خوشیوں کی برسات آپ کو مبارک ہو۔

مگر حقیقی خوشی کا ذائقہ اپنے دلوں میں سما کر تو دیکھیے اور فکروتدبّر کیجیے کہ یہ کوئی معمولی بات تو نہیں کہ اللہ ربّ العزت انسانیت کی خدمت کو اپنی خدمت کے مترادف بتلاتا ہے۔ہمیں ان تمام غم زدوں پر ثابت کرنا ہو گا کہ ہمارے دل ہرگز تنگ نہیں ہیں اور ہم قولِ رسول صرف سنتے ہی نہیں، اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔یقیناً ہم کھٹور دل نہیں کہ سب کچھ دیکھ اور سُن کر برداشت کرتے رہیں سو میں پھر وہی آہٹ اور چاپ آپ کی سماعتوں کے نزدیک تر لے آنا چاہتا ہوں جو ہر آفت زدہ موقِع پر آپ سنتے ہیں کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ان دکھوں سے لدے لوگوں کی دامے، درمے، قدمے؛ سخنے بہ ہر طور مدد کیجیے۔

سب سے زیادہ اشیائے خورونوش کی ضرورت ہے۔کہیں اس آہٹ پر آپ کے دل کجلا اور من دھندلا تو نہیں جائیں گے؟ میرا روئے سخن بہ طورِ خاص درمیانے طبقے کی طرف ہے۔تمام نہ سہی جذبات واحساسات کی سطحِ مرتفع پر فائز کشادہ دل لوگ ہی ان ستم زدوں کے آنسو بانٹ لینا چاہیں تو آنسوؤں کا ایک ایک قطرہ بھی ہمارے حصّے میں نہیں آئے گا۔اگر ہم لوگ کھجور کے ایک حصّے کی مثل بھی ان کی مدد کریں تو پھر ان کے بھوک سے وابستہ تمام درد ختم ہی ہو جائیں گے۔

ان کی مدد کیجیے کہ ربّ العزت کی رضا کے ساتھ ساتھ سریر آرائے دل بھی وہی لوگ ٹھہرتے ہیں جو کسی کے آنسو اپنی آنکھوں میں بسا لینے کا ہنر جانتے ہیں۔
اس اندھیرے میں نہ اک گام بھی رُکنا یارو
اب تو اک دوسرے کی آہٹیں کام آئیں گی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :