جب بھی اہلِ حق اُٹھے، دوجہاں اٹھا لائے

منگل 8 جون 2021

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

جدید فکرونظر کے سانچے، حُسنِ بیان کے آئینے اور فصاحت وبلاغت کے پیمانے پر لفظ ”مذاکرات“ اتنا پورا اترتا ہے کہ ہمارے اعلا وارفع سیاسی مدبّر بِنا کسی تاویل اور تامّل کے اِس لفظ کی انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ مالا جپنے لگتے ہیں، تاکہ عالمی برادری ان کے حُسنِ خیال اور حُسنِ عمل سے متاثر ہو جائے، چاہے اِس لفظ کی قیدوبند میں پھنسے ہوئے 70 سال کیوں نہ بیت جائیں، خواہ اس لفظ کی وجہ سے ہر گتّھی سلجھنے کے بجائے الجھتی چلی جائے، چاہے اِس لفظ کی آڑ میں دشمن ہمارے پانیوں کو اپنی توند میں اتارتے چلے جائیں، خواہ اِس لفظ کے پردے میں ہمیں جان کاہ عذابوں میں مبتلا کر دیا جائے، چاہے ہماری سرحدوں پر آگ اور بارود برسا دی جائے، خواہ ہماری مُلکی حدود میں دشمن کے طیارے اور جنگی ہیلی کاپٹر تک گُھس آئیں، چاہے دشمن مُلک کی خفیہ ایجنسیاں ہمارے وطن کو دہشت گردی کی آگ میں جھلساتی رہی ہوں، خواہ ہمارا دشمن اپنے مُلک میں خود دہشت گردی کروا کر ہمارے سَر تھوپتا رہا ہو، چاہے ہمارا دشمن ہماری فوج اور ایجنسیوں کے خلاف فلمیں بنا کر ہمارے خلاف بین الاقوامی برادری کی ذہن سازی کرتا چلا جائے، ہم ”مذاکرات“ کی دراز زلفوں کے دامِ حُسن سے باہر نکلنے کی کوئی سعی نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)

شاہ محمود قریشی نے نیویارک میں پھر اسی بات کو اعادہ کیا کہ”بھارت سے مذاکرات چاہتے ہیں“حقیقت یہ ہے کہ ہم نے معروف شاعر”خواہ مخواہ حیدرآبادی“ کے بہ قول مذاکرات کی ان زلفوں کو بہت سَر پر چڑھا لیا ہے۔
چھیڑتی ہیں کبھی لب کو کبھی رخساروں کو
تم نے زلفوں کو بہت سَر پہ چڑھا رکھا ہے
چوں کہ یہ لفظ جدید عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ اور ہم کنار ہے، اس لیے کہ مذاکرات سے انحراف کی جدید عالمی حالات کی لغت میں کوئی گنجایش موجود نہیں۔

مجھے کبھی کبھی بڑی حیرت ہوتی ہے کہ کیا مذاکرات کی فیڈر میں دودھ اتنا شیریں اور خوش ذائقہ ہے کہ اسے منہ سے لگا لینے کے بعد ہم اپنے وجود پر لگے خونیں چرکوں اور گہرے گھاؤ کے درد کو بھی محسوس نہ کر سکیں؟ کیا مذاکرات کے لفظ میں اتنی سحر آفرینی اور مدہوشی ہے کہ جو ہم سے احساسِ زیاں تک چھین لیتی ہے۔ہماری سرحدوں اور مُلک کے اندر”را“ کی دہشت گردی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں رہی مگر بھارت ہر موقع پر ہمیں ہی دہشت گرد کہ کر مطعون کرتا ہے۔

ہم نے آج تک مذاکرات سے آس لگانے سوا کچھ بھی تو نہیں کیا، جب کہ مذاکرات سے سرِ مُو انحراف کرنا بھارت کا وتیرہ بن چکا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ یہ تک کہتے رہے ہیں کہ اگر حریت راہ نماؤں سے ملاقات نہ کریں اور مسئلہ ء کشمیر پر بات نہ کریں تو پاکستانی وفد کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں۔حیرت ہے کہ پھر مذاکراتی صعوبتوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ان دو شرائط کی موجودگی میں مذاکرات کی میز پر مغز ماری کس کام کی؟ پاکستان اور بھارت کے مابین سب سے اَہم مسئلے پر بات نہیں کی جائے گی تو پھر ان فرضی معانقوں اور مصافحوں کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ بھارت، کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے سال بھر میں تین مختلف مراحل میں سرگرمِ عمل رہتا ہے۔

سب سے پہلے وہ خود مذاکرات کی مالا جپنے لگتا ہے، جب مذاکرات کی تاریخ نزدیک آتی ہے تو پھر ایسی شرائط عائد کر دیتا ہے جن سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا سارا مطلوب ومقصود ہی رائگاں اور کِرکِرا ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر آخری مرحلے میں وہ مذاکرات کا معاملہ مؤخر یا ختم ہونے پر اظہارِ تاسّف بھی خود ہی کرتا ہے۔بھارت محض مذاکرات کی آس اور امید جگا کر پاکستان کو فریب میں مبتلا کرنے کے سوا کچھ بھی تو نہیں کرتا اور ہمارے سب سیاست دان میر تقی میر کے اس شعر کی طرح مذاکرات ہی کے اسیر رہتے ہیں۔


ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
جب پاکستان مذاکرات کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگ جاتا ہے تو پھر مذاکرات کو معطل کر کے سارے طرب کو کرب میں بدل دیا جاتا ہے۔اپنی انا، خودی اور مسئلہ ء کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کے ڈھونگ سے جان چھڑانا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ہم جتنی بھی کوشش کر لیں، بھارت کے دل کی بنجر زمین پر مذاکرات کی فصل کاشت کرنا کسی طور پر بھی ممکن نہیں۔

بھارت کے لیے جتنی بھی قربانیاں دے دی جائیں، اُس کی محبت میں جس قدر بھی دیوانگی اختیار کر لی جائے وہ کبھی ہمارا رفیق اور دم ساز بننے پر آمادہ نہیں ہو گا۔ حالات و واقعات شاہد ہیں کہ پاکستان نے آج تک کبھی سیز فائر کی خلاف ورزی نہیں کی مگر بھارت لائن آف کنٹرول پر سیکڑوں بار آگ اور بارود برسا چکا ہے۔وہ بیسیوں مرتبہ ایل او سی ورکنگ باؤنڈری پر خونیں جارحیت کر چکا ہے۔

مذاکرات کے چُنگل میں پھنسنے کا نتیجہ آج یہی ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا رویّہ اور لب و لہجہ اشتعال انگیز اور عمل و کردار بارودی ہو چکا ہے۔مذاکرات کے نام پر ہم سے بہت ہی گھناؤنے مذاق کیے جا چکے۔ہمارے وہ تمام سیاسی زعما جو مذاکرات کی دل فریبی اور دل کشی پر ریجھ بیٹھے ہیں انھیں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ بھارت سیدھے سبھاؤ کوئی بھی مسئلہ حل کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔مسئلہ ء کشمیر کے متعلق ہم حق پر ہیں اور تھوڑی سی جراَت کا مظاہرہ کر لیا جائے تو منظر بھوپالی کا یہ شعر حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
جب بھی اہلِ حق اٹھے دوجہاں اٹھا لائے
خاک پر کیا سجدہ، آسماں اٹھا لائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :