دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت

ہفتہ 14 اگست 2021

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

اُس ایمان کے وجدان میں ایک عجیب ہی شان تھی جو ہر کلمہ گو مسلمان کی صرف زبان پر ہی نہیں بلکہ کردار وعمل کی پہچان اور برہان بن چکا تھا، اگرچہ مسلمان کتنے ہی مقاماتِ آہ وفغاں سے گزرے، اُن کی آنکھوں میں کتنے ہی درد جھونک دیے گئے، اُن کے سینوں میں کُرلاتی سسکیاں پیوست کر دی گئیں، اُن کے جواں جذبوں میں فروزاں آزادی کی تب وتاب کو مسموم کرنے کے لیے ہجرتوں کے راستوں میں صعوبتوں کے انبار لگا دیے گئے۔

ہجرتوں کا سلسلہ کتنا دلدوز اور بھیانک تھا، یہ صرف وہی لوگ جانتے ہیں جو اس جان کاہ اذیت سے گزر آئے تھے۔خالد صدیقی نے ہجرتوں کا ایک منظر یوں بیان کیا ہے۔
یہ کیسی ہجرتیں ہیں موسموں میں
پرندے بھی نہیں ہیں گھونسلوں میں
آزادی کی شباب آفریں رُتوں میں قدم قدم پر منافرتوں سے آلودہ تاریک گوشے تعاقب میں لگا دیے گئے مگر آزادی کے جذبہ ء جنوں کی لَو مدھم نہ کی جا سکی اور آپ جانیں کہ اگر جنوں، حق و صداقت سے لبریز اور سرشار ہو تو اِسے منزلیں طے کرنے سے بھلا کون روک سکتا ہے؟ عبد الحمید عدم نے کہا تھا۔

(جاری ہے)


جنوں اب منزلیں طے کر رہا ہے
خرد رستہ دِکھا کر رہ گئی ہے
نظریاتی بنیادوں پر استوار آزادی کی وہ چاپ اور آہٹ جو کئی برس قبل مسلمان سُن چکے تھے، کنجِ دل سے ہو کر قول وعمل میں ڈھل چکی تھی۔ابو ریحان البیرونی جب ہندوستان آیا تو اُس نے بھارت کے رسم ورواج کا تذکرہ ”کتاب الہند“ میں اس طرح کیا کہ”ہندو اور مسلمانوں کے کھانے، پینے، نہانے، دھونے، لباس، شادی بیاہ، طلاق اور پیدایش غرض ہر طریقہ ایک دوسرے سے جدا ہے“
روز بہ روز ہندوؤں کا تعصّب پلتا اور دوقومی نظریہ نکھرتا چلا گیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہدِ ظلمات میں حکومت، انگریز اور ہندوؤں کے گٹھ جوڑ نے مسلمانوں کی سیاست، اقتصادیات، تعلیم اور مذہبی حالت کو بگاڑ کر رکھ دیا۔انگریزوں نے اسلامی اقدار اور قوانین میں مداخلت شروع کر دی۔ہندو لیڈر سوامی سیتا دیو جی نے اپنی تقریر میں یوں تعفّن پھیلایا کہ”ہندو سنگھٹن کا کردار مضبوط ہونا چاہیے، اس دنیا میں طاقت کی پوجا ہوتی ہے اور جب تم مضبوط بن جاؤ گے تو مسلمان خود بہ خود تمھارے قدموں میں اپنا سَر جھکا دیں گے، اس صورتِ حال میں ہم ان کے سامنے اپنی شرائط پیش کریں گے“ اور آپ وہ شرائط بھی پڑھ لیں کہ مسلمان، قرآن کو الہامی کتاب نہیں کہیں گے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو رسولِ خدا نہ کہا جائے، عرب کا خیال دل سے نکال دیں، اسلامی تہوار اور تعطیلات کی بجائے ہندو تہوار اور تعطیلات منائی جائیں، مسلمانوں کو اسلامی نام چھوڑ دینے چاہییں اور ان کی جگہ رام اور کرشن جیسے نام رکھنے چاہییں اور عربی کی بجائے عبارتیں ہندی رسم الخط میں لکھنی چاہییں۔


مسلمانوں کی ثقافت سے لے کر سیاست تک اور مذہب سے لے کر عبادت تک ہر چیز کو بُری طرح پامال کیا جا رہا تھا۔ہندو تنظیموں کی اسلام دشمنی، گائے ذبح کرنے کا مسئلہ، ہندو لٹریچر میں مسلمانوں کی توہین اور تحقیر، ہندوؤں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا تھا۔نصابی کتب میں مسلمان طلبہ کو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بجائے گوتم بدھ، کرشن اور رام چندر کے ڈھکوسلے پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔

مسلمان طلبہ کو مجبور کیا جاتا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر گاندھی کی تصویر کے سامنے کھڑے ہوں، بعض تعلیمی اداروں میں ہندو اوتاروں کے بت رکھے گئے تھے اور مسلمان طلبہ کو مجبور کیا جاتا کہ وہ ان بتوں کے سامنے سَر جھکائیں۔بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے نعرہ زن اور زمزمہ سنج تمام سیاست دان خوب جانتے ہیں کہ ہندو اور سِکھوں نے ہمارے اجداد کے جسموں پر کیسے کیسے جان کاہ ظلم کھود ڈالے تھے، ایسے آلام مسلمان عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کے نحیف وناتواں جسموں میں گاڑ دیے گئے تھے کہ جنھیں سُن کر سانسیں رکنے لگتی ہیں مگر بدر کے میدان سے اٹھنے والے دوقومی نظریے کی اساس پر ایک آزاد اسلامی مُلک کے قیام کے لیے قیامت خیز ظلم کو برداشت کر لیا گیا، وہ نظریہ جو دیبل کے ساحل پر فتح کے جھنڈے گاڑ کر ہندوستان میں پھیلا، اس نظریے کی خاطر سہاگنوں کے سہاگ اجاڑ دیے گئے، وہ دوقومی نظریہ جس کی بنیاد پر محمود غزنوی نے بتوں کو پاش پاش کر ڈالا تھا، اس عقیدے کے لیے ہزاروں مسلمانوں کے جگر گوشوں کو نیزوں کی اَنیوں میں پرو دیا گیا، بابائے قوم نے کہا تھا کہ پاکستان کا حصول محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ ایک تجربہ گاہ کی حیثیت سے چاہیے، جہاں ہم اپنے اللہ اور رسول کی بتائی ہوئی تعلیمات اور اصولوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔


لیلة القدر کی سعید ساعتوں میں پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا، ہجرتوں کے طویل سلسلوں سے گزر کر اذیتوں میں ڈھلے یہ قافلے پاکستان پہنچے، ایک آزاد اسلامی مُلک کے قیام کے لیے ہمارے آبا واجداد نے اپنا سب کچھ تیاگ دیا۔بخش لائل پوری کا شعر ہے۔
دردِ ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہِیں
سایہ ء دَر بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
مگر یہ محض ایک دَر نہیں بلکہ مدینے کی طرز پر قائم کی گئی ایک عظیم الشّان مملکت تھی۔

آج اگر ہم روشنیوں کے امین اور اجالے نشین ٹھہرے ہیں تو یہ ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا ثمر ہے۔اسلوبِ حصولِ آزادی ہمارے اجداد کے خون کے سانچے میں ڈھلا تھا، سو آج ہم دنیا کے سب سے خوش قسمت انسان ہیں کہ ایٹمی طاقت سے مسلح اسلامی مُلک کے شہری ہیں۔ہمارے وہ دشمن جو اس گمان میں مبتلا تھے کہ اگر پاکستان بن بھی گیا تو بہت ہی قلیل عرصے میں دوبارہ بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور ہو جائے گا، آج وہی دشمن پاکستان کو سب سے بڑی اسلامی طاقت کی حیثیت سے دیکھ کر عنادوبغض کے انگاروں پر بُری طرح پیچ وتاب کھا رہا ہے۔

اس نے ہم پر جنگوں کے ذریعے ناگوار اور ہولناک ساعتیں مسلّط کرنے کے جتن کر لیے مگر ناکامی اور نامرادی اس کے حصّے میں آئی، وہی دشمن علاقائی، لسانی اور مذہبی فتنوں کو پاکستان میں انگیخت دینے کے لیے اپنی ساری توانائیاں کھپاتا رہا ہے۔
1965 ء کی جنگ میں جس طرح ہم نے اس مُلک کی خاطر بے دریغ جانیں قربان کر کے عقیدت اور مَحبّت کا ثبوت دیا، آج عالَمِ کفر کے فتنوں کی سَرکوبی کے لیے وہی اتحاد ناگزیر ہو چکا ہے۔

دنیا جانتی ہے کہ ہم وفاؤں کے امین ہیں، ہم قربانیوں سے کسی طور نہیں گھبراتے، جانیں قربان کرنا ہماری تاریخ کا حُسن وجمال ہے اور خوئے وفا ہماری فطرت میں رچی بَسی ہے۔لال چند فلک کا شعر ہے۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
 میری مٹّی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :